عصر حاضر میں علماءکی ایک بہت بڑی جماعت کا موقف یہ ہے کہ رویت ہلال کے سلسلے میں فلکیاتی حساب پر انحصار کرنا چاہیے،کیونکہ ایک طرف تو اس سے رمضان المبارک ،حج اور سال کے دیگر مہینوں کے انتظامات میں آسانی پیدا ہوگی، خلفشار دور ہوگا،معاشی امور ومسائل منظم شکل میں انجام دیئے جاسکیں گے اور تمام فرزندان اسلام ذہنی سکون کے ساتھ یکسوئی سے اپنے کام انجام دے سکیں گے۔ذیل کا مضمون اسی جماعت کی تائید میں لکھا گیاہے،جس کا ترجمہ وتحقیق پیش خدمت ہے۔
مقالہ نگار:پروفیسر ڈاکٹر شیخ مصطفی ٰ الزرقاء ترجمہ وتحقیق : محمد وسیم رضاماتریدی
پروف ریڈنگ : حافظ محمد فیض رسول ، مفتی یوکے و یورپ ہلال فورم
فلکیاتی حساب پر عمل قرآن و سنت اور فقاہت کے منافی نہیں:
۱۔’’العقل و فہم الحدیث النبوی ﷺ‘‘ کی سابقہ قسطوں میں ،میں نے جس فریم ورک کو استعمال کیاہے ،اسی منہج میں رہتے ہوئے، اب اس چوتھی قسط کو لکھ رہاہوں ،میں نے اس کتاب میں شروع سے اب تک ایک ہی منہج کو اختیار کیاہے ،اور اسی منہج واسلوب میں رہتے ہوئے اب بذات خود چاند کی پیدائش کی اہلیت ،اس کے اثبات کاجواز،اور اس کی تاریخوں کا تعین، فلکیاتی حساب سے پیش کرنے کی کوشش کروں گا ،جوکہ ہمارے عہد کا ایک سلگتہ ہوا مسئلہ ہے،اس مسئلہ کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ چاند کے اثبات پر کئی شرعی تکالیف کا مدار ہے،مثلاروزوں کا شروع کرنا،اختتام کرنا،پھر عید الفطر ،ان کے علاوہ کئی دینی احکام[مثلاعدت،حج وغیرہ کے مسائل] اور عدالتی فیصلوں کا تعلق بھی اسی مسئلہ ہلال کے ساتھ وابستہ ہے۔
۲۔اس مسئلہ کے حوالہ سے بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا اس دور میں قمری مہینے کی آمد پر فلکیاتی حساب کو اختیار کرنا کہ جس سے شرعی تکلیف منسلک ہے ،جائز ہے یا پھر فلکیاتی حساب کو اختیار کرنا جائز نہیں؟۔اور یہ سوال رسالت مآب ﷺ کے اس فرمان کے تناظر میں پیداہوا ہے:
صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ فَإِنْ غمّ عَلَيْكُمْ فَاتموا الْعدۃ ثلاثین۔[بخاری،مسلم]
[أخرجه البخاري، كتاب الصوم، باب قول النبي ﷺ(إذا رأيتم الهلال فصوموا، وإذا رأيتموه فأفطروا))، برقم (1909).۔أخرجه مسلم، كتاب الصيام، اب وجوب صوم رمضان لرؤية الهلال، والفطر لرؤية الهلال، وأنه إذا غم في أوله أو آخره أكملت عدة الشهر ثلاثين يوما، برقم (1081).]
اور جب تم چاند دیکھو تو روزہ رکھو !اور جب تم چاند دیکھو تو افطار کرو!، اور اگر تم پر ابر آلود ہو تو تیس دن کی گنتی پوری کرو۔
یہ اور اس طرح کی اور بہت ساری روایات جو اس موضوع کے حوالہ سے مذکور ہیں ،ان کے تناظر میں موجودہ عہد میں سابقہ سوال بڑی اہمیت اختیار کرگیاہے،اس لیے اس موضوع پر تفصیل سے کلام کرنا ضروری ہوگیاہے۔
۳۔بس اس سلسلہ میں ،میں اپنی تحقیق اور تفتیش بیان کرنا شروع کرتاہوں:میری تحقیق کے مطابق مجھے جدید شریعت کے علما ءکے اختلاف میں کوئی ایسی چیز نظر نہیں آتی جو تعجب کا باعث ہو،کیونکہ جن دومختلف باتوں کو بنیاد بناکر علماء شریعت کے مابین شدیداختلاف کو بڑھاوادینے کی کوشش کی جارہی ہے،میرے خیال کے مطابق ان میں اختلاف کرنا کسی بھی طرح سرے سے جائز ہی نہیں ہے۔ان دواختلافی باتوں میں سے ایک تووہ ہے جو میری آج کی گفتگو کا موضوع ہے ،وہ ہے موجودہ زمانہ میں قمری مہینے کی آمد کا تعین کرنے کے لیے فلکیاتی حساب کو اختیار کرنا ،تاکہ شرعی احکام مرتب ہوسکیں اور اس فلکیاتی حساب کے مطابق شرعی احکام کو بہتر اورمنظم طریقے سے سرانجام دیاجاسکے،اب میں سب سے پہلے اصل موضوع کی طرف متوجہ ہوتاہوں ،پھر تفصیلاً ایک ایک چیز پر بحث کروں گا،اور عہد جدیدمیں اس مسئلہ کی اہمیت کیوں زیادہ اہم ہے اس کی طرف بھی اپنی توجہ مبذول کروں گا۔
۴۔ہاں البتہ میں تاکیدا اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ میری مراد اپنے اس خاص دور سے ہے،کیونکہ میں اس معاملے میں فلکیاتی حساب پر انحصار نہ کرنے پر ہمارے متقدمین علماء کی منفی پوزیشن پر حیران نہیں ہوں،بلکہ اگر میں بھی ان کے عہد میں ہوتا تو انہیں والا موقف اختیار کرتا، اگر ہم علمائے سلف کے زمانے میں ہوتے تو ہم بھی وہی کہتے جو انہوں نے کہا ہے کیونکہ اس وقت سلف کے زمانے میں فلکیاتی حساب پر اعتماد ممکن نہ تھا اس وقت ایسے آلات ایجاد نہیں ہوئے تھے جو منٹ اور سیکنڈتک بتا کر چاند طلوع ہونے کا تعین کرسکتے۔ لیکن افسوس موجودہ دور کے علماء پر ہورہاہے ،ان کے حساب پر عدم اعتماد پر تعجب اور حیرت ہورہی ہے ،یہ بھی حقیقت ہےاگر آج سلف صالحین ہمارے درمیان ہوتے تووہ رویت ہلال کے سلسلے میں فلکیاتی حساب پر انحصارکے قائل ہوجاتے اور اپنی رائے بدل لیتے۔
۵۔عصر حاضر میں فلکیاتی حساب کے ذریعے طلوعِ ہلال کا فیصلہ کیا جائے کیونکہ عصر حاضر میں علماءکے درمیان اس حوالے سے اختلاف حیرت انگیز ہے ،سلف صالحین نے جن اسباب کی وجہ سے فلکیاتی حساب کو غیر معتبر قراردیا تھا وہ سارے اسباب اب دور ہوچکے ہیں۔اب ہم ایسے عصر میں زندگی گزار رہے ہیں جب انسان چاند کو تسخیر کرچکا ہے ، مدار میں سیارے بھیج رہا ہے ، خلاءمیں سیر سپاٹے کے لیے جارہا ہے ،ہزاروں نوری سال کی مسافت پر واقع سیاروں کا پتہ لگا رہا ہے۔معلوم ہونا چاہیے کہ فلکیاتی حساب ظن و تخمین پر مبنی نہیں رہا بلکہ جدید وسائل چاند کے طلوع کا تعین ،منٹ اور سکنڈتک کے حساب سے کررہے ہیں،اسی طرح مختلف سائنسی، عسکری اور جاسوسی مقاصد کے لیے سیٹلائٹس کو زمین کے گرد مخصوص فلکیاتی مداروں میں رکھنا، پھر مختلف اہداف کے ساتھ خلائی سفر کرنا اور اپنی کشتیوں کو خلا میں سیاحت کے لیے چھوڑنا جو زمین کو گھیرے ہوئے ماحول سے باہر ہے، اور اس کے دائرہ کار سے بھی باہر ہیں،ایسے ہی زمین کی کشش ثقل،پھر اس نے کچھ گھومنے والے مصنوعی سیاروں کو باہر نکالا تاکہ کسی بھی عدم توازن کو ٹھیک کیا جا سکے جو ان کے خلا میں ہوتے وقت ہو سکتا ہے!،اس ساری صورت حال سے واضح ہوتاہے ہمارے زمانے میں فلکیاتی نظام بالکل ہی بدل چکاہے، فلکیاتی نظام کی صورت حال اسلاف کے زمانہ میں نہ تھی۔
۶۔مجھے اس بات کا بھی یقین ہے کہ ہمارے متقدمین علماء جنہوں نے فلکیاتی حساب پر اعتماد کرنے کو قبول نہیں کیا ،اس کے بھی چند اسباب ہیں ،اور یہ عدم اعتماد علت کے ساتھ معلول ہے،میں انشاء اللہ عزوجل جلد ان اسباب کو بھی انہیں کی آراء کے ساتھ نقل کرتاہوں ،لیکن ابھی میں اتنا کہنا چاہوں گاکہ کاش وہ آج ہمارے زمانہ میں ہوتے اور دیکھتے کہ سائنس کی بنیاد پر فلکیاتی نظام میں کس درجہ حیرت انگیز ترقی نے انسانی ذہنوں کو بدل کررکھ دیاہے ،جب وہ موجودہ فلکیاتی تحقیقات کو ملاحظہ کرتے تو مجھے امید ہے وہ اسلاف بھی اپنی رائے بدل کرہماری رائے اختیار کرلیتے،اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں شریعت کے مقاصد کو سمجھنے میں فکری افق کی وہ وسعت عطاء کی تھی جوان سے قبل کسی کو نہیں دی گئی تھی مگر چونکہ اب حالات وواقعات بدل چکے ہیں ،اس لیے اسلاف کے فہم کی روشنی میں متاخرین کو بھی اپنے اندر فکری وسعت کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔
۷۔یہ بھی کوئی حکمیمانہ فیصلہ نہیں ہے کہ اگر ماضی میں فلکیاتی مشاہدہ اور اس کے حسابات اتنے درست اور دیانت دار نہیں تھے کہ اس پر بھروسہ کیا جا سکے تو کیا اس فیصلے کا آج تک اطلاق کرنا درست ہے؟،یا یہ موقف اختیار کرنا روا رکھا جائے گا ابھی تک فلکیاتی نظام میں قابل اعتماد اور استفادہ علم کے اسباب وجود میں نہیں آئے،کیا انسانی علم ظن وتخمین کی حدود کو کسی طرح پار نہیں کرسکا؟،یہ اے روز کی تحقیقات وتفتیشات سے فلکیاتی نظام میں کوئی یقین پیدا نہیں ہوا؟،اپنی روز مرہ کی زندگی میں کتنے امور کے حوالہ سے محض فلکیاتی حساب پر اعتماد کرتے ہیں تو پھر اس معاملے میں کیوں نہیں کرسکتے؟کیا موجودہ دور اس بات کی اجازت نہیں دیتاکہ ہم جدید فلکیاتی حسباب پر کامل طریقے سے اعتماد کرلیں۔
۸۔جہاں تک یہ کہا جاتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے روزہ اور افطار شروع کرنے کے لیے چاند کی بصری رویت پر اعتماد کا حکم دے رکھا ہے تو اس سلسلے میں ہمارا کہنا یہ ہے کہ رسول اللہ اس کی علت بھی بیان کررکھی ہے،علت یہ بتاتی ہے کہ ہم ان پڑھ قوم سے تعلق رکھتے ہیں جو نہ لکھنا جانتی ہے نہ حساب لگانا جانتی ہے، لہٰذا ان کے پاس طلوع ہلال کو جاننے کےلیے بصری رویت کے سوا کوئی اور طریقہ نہ تھا، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر قوم تعلیم یافتہ ہواور حساب سے واقف ہو تو وہ یقینی علم کا طریقہ اختیار کرکے چاند کے طلو ع ہونے کا پتہ لگا سکتی ہے۔ اگر مسلمان ایسے علم میں دسترس پیدا کرلیں جس کے ذریعے چاند کی شروعات اور انتہاکا علم یقین سے ہوجاتا ہو تو ایسی حالت میں فلکیاتی حساب پر انحصار میں کوئی شرع مانع نہیں ۔یہ بات ناقابل فہم ہے کہ رسول اللہ ہمیں ایسے علم سے روکیں جو کائنات کے نظام ،اللہ تعالیٰ کی قدر ت ، اسکی حکمت اور دقیق نظام کو اجاگر کررہا ہو۔
۹۔اگر ہم علمائے سلف کے زمانے میں ہوتے تو ہم بھی وہی کہتے جو انہوں نے کہا ہے کیونکہ اس وقت سلف کے زمانے میں فلکیاتی حساب پر اعتماد ممکن نہ تھا اس وقت ایسے آلات ایجاد نہیں ہوئے تھے جو منٹ اور سیکنڈتک بتا کر چاند طلوع ہونے کا تعین کرسکتے۔اگر آج سلف صالحین ہمارے درمیان ہوتے تووہ رویت ہلال کے سلسلے میں فلکیاتی حساب پر انحصارکے قائل ہوجاتے اور اپنی رائے بدل لیتے۔ چاند کی بصری رویت بذاتہ عبادت نہیں بلکہ یہ روزے کا وقت جاننے کا ذریعہ ہے، ماضی میں ننگی آنکھ سے رویت ہی سہل اور مہیا وسیلہ تھے اب صورتحال بدل گئی ہے۔رویت ہلال کے سلسلے میں کسی ایک حدیث نہیں بلکہ تمام احادیث کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ عصرحاضر میں علم الفلک شعبدہ بازی ،ستارہ شناس،کہانت اور ستاروں کے ذریعے قسمت کی خبر دینے والے فن سے یکسر الگ ہے لہذا اس حوالے سے علماءمیں جو تحفظات پائے جاتے ہیں ان کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں ۔
۱۰۔اب ہم ان روایات کا جائزہ لیتے ہیں جو رویت بصری کے متعلق وارد ہوئی ہیں اور قمری مہینوں کی تعیین میں مدد فراہم کرتی ہیں، اس حوالہ سے سب سے پہلے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ سے یہ حدیث روایت کی ہے:
حَدَّثَنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنا مالِكٌ، عَنْ نافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ : أنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ ذَكَرَ رَمَضانَ فَقالَ: لاَ تَصُومُوا حَتّى تَرَوُا الهِلالَ، ولاَ تُفْطِرُوا حَتّى تَرَوْهُ، فَإنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فاقْدُرُوا لَهُ۔[وفی روایۃ]الشَّهْرُ تِسْعٌ وعِشْرُونَ لَيْلَةً، فَلاَ تَصُومُوا حَتّى تَرَوْهُ، فَإنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَأكْمِلُوا العِدَّةَ ثَلاَثِينَ۔
[أخرجه البخاري، كتاب الصوم، باب قول النبي ﷺ (إذا رأيتم الهلال فصوموا، وإذا رأيتموه فأفطروا))، برقم (1909).۔أخرجه مسلم، كتاب الصيام، اب وجوب صوم رمضان لرؤية الهلال، والفطر لرؤية الهلال، وأنه إذا غم في أوله أو آخره أكملت عدة الشهر ثلاثين يوما، برقم (1081).]
ابن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے رمضان کا ذکر کیا پھر فرمایا کہ روزہ مت رکھناشروع کرو جب تک چاند نہ دیکھ لو اور نہ ہی روزہ بند کرو جب تک تم ہلال کو دیکھ نہ لو، پھر اگر چاند دکھائی نہ دے تو اس کے لیے اندازہ کر لو، اور ابن عمر ہی کی روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مہینہ ۲۹ دن کا ہوتا ہے تب تم روزہ نہ رکھو جب تک چاند نہ دیکھ لو اگر چاند چھپ جائے تو مہینے کے ۳۰ دن پورے کرلو ( پھر روزہ شروع کرو ) ۔
اس حدیث کو بخاری و مسلم دو نے نقل کیا ہے، اور مسلم کی ایک روایت میں ہے: ’’اگر تم پر ابر آلود ہو تو تیس کا تخمینہ لگائیں ‘‘ جو کہ پہلی روایت میں موجود مطلق تخمینہ کے معنی کی وضاحت ہے۔ ایک اور روایت بھی ہے جس کو بخاری،مسلم،اور نسائی نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیاہے:
عَنْ أبِي هُرَيْرَةَ ، قالَ: قالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: إذا رَأيْتُمُ الهِلالَ فَصُومُوا، وإذا رَأيْتُمُوهُ فَأفْطِرُوا، فَإنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَصُومُوا ثَلاثِينَ يَوْمًا۔
[أخرجه مسلم، كتاب الصيام، اب وجوب صوم رمضان لرؤية الهلال، والفطر لرؤية الهلال، وأنه إذا غم في أوله أو آخره أكملت عدة الشهر ثلاثين يوما، برقم (1081).]
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم چاند دیکھو تو روزہ رکھو اور اگر دیکھو تو افطار کرو۔ اور اگر ابر آلود ہو تو تیس روزے رکھو۔
اس سلسلہ میں جتنی بھی روایات نبی کریم ﷺ سے روایت کی گئی ہیں ،ان تمام میں صوم وافطار کونئے چاند کی روئیت کے ساتھ ہی منسلک کیاگیاہے،اور قدر یا تقدیرکا لفظ قابل غور ہے کہ جب روئیت بصری کو کسی ایسے حادثے کی وجہ سے ممتنع ہوجائے تو ایسی صورت میں موجودہ مہینہ شعبان یا رمضان تیس دن کی تکمیل کے ساتھ ہی مکمل ہوگا،لہٰذا روئیت بصری کی وجہ سے انتیس دن کا اعتبار ہوگا،یہ ان لوگوں کی دلیل ہے جو قمری مہینوں کے آغاز کے تعین میں فلکیاتی حساب پر انحصار کو قبول نہیں کرتے، اگرچہ فلکیاتی حساب اپنے علم اور طریقوں کی ترقی کے ساتھ درستگی کے درجے تک پہنچ جاتا ہے،یہ لوگ متقدمین کے موقف پر ٹھرے ہوئے ہیں اور کہتے ہیں : سلف صالحین کی دلیل یہ رہی ہے کہ نبی کریم کا ارشاد ہے کہ ”چاند دیکھ کر روزہ رکھواور چاند دیکھ کر افطار کرواور اگر آسمان ابر آلود ہوتو تیس دن کی گنتی مکمل کرو“ اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام نے چاند کی پیدائش اور قمری مہینوں کی ابتدا کو بصری روئیت سے جوڑ دیا ہے ۔
۱۱۔اور ہم جواباً کہتے ہیں ہمارے ہاں یہ ایک معروف ومسلم شدہ بات ہے کہ قواعد شرعیہ اور اصول فقہیہ جو عبادات کے حوالہ سے وارد ہوئے ہیں ان میں بحث و مباحثہ اور اختلاف کی کی کوئی گنجائش نہیں ہے، لیکن یہ اصول ان نصوص میں عائد ہوتاہے جن میں تعلیل وعلت کو کوئی عمل دخل نہیں ہے ،اور وہ احکام مطلق وارد ہوئے ہیں ،ہاں البتہ کوئی نص ایسی ہے جو کسی علت کے ساتھ ہی معلول ہے تو لازماً ایسی صورت میں اس نص میں موجود علت کا اعتبار ہوگا،اور وہ نص تب ہی قابل فہم ہوگی جب اس کی علت کو واضح طریقے سے کھل کر بیان کیاجائے گا،جب کسی نص کو علت کے ساتھ معلول کردیاجاتاہے تو وہ نص علت کی تاثیر کے بغیر کسی بھی طرح قابل فہم نہیں رہتی ،علت و معلول کے ربط کےساتھ ہی وجودی وعدمی حکم مرتب ہوگا،مذکورہ مسئلہ کے متعلق جتنی روایات وارد ہوئی ہیں وہ سب کسی نا کسی علت کے ساتھ معلول ہیں ،اب ان روایات کا صحیح محل اسی وقت واضح ہوگا،جب یہ علت ومعلول کا اصلو متحقق ہوگا،جب کوئی نص یا روایت کا حکم کسی علت سے معلول ہوجاتاہے تو ایسی صورت میں اعتبار اس علت کا ہی ہوتاہے،چاہے وہ روایت عبادات کے قبیل سے ہی کیوں نہ ہو،یہی معاملہ رویت صحیحہ والی روایات کا بھی ہے ،یہ روایات بھی علت کے ساتھ ہی معلول ہیں، اب ہم موضوع کے اس پہلو پر تفصیلی کلام کرتے ہیں۔
۱۲۔یہ بھی ایک مسلم شدہ حقیقت ہے کہ زیر بحث مسئلہ پر صرف یہی حدیث مذکورہ نہیں ہوئی بلکہ اس کے علاوہ اور بھی بہت ساری روایات ہیں جن سے ثابت ہوتاہے روئیت ہلال کے مسئلہ میں رسالت مآب ﷺ بھی علت پر اعتماد کرتے تھے، اور رسول اللہ ﷺنئے مہینے کی آمد کو جاننے کے لیے ہلال کو دیکھنے کے وقت اپنے حکم کی علت بھی واضح کرتے تھے تاکہ اس پر مرتب ہونے والے فرائض واحکام متحقق ہوسکیں ،مثلاروزہ وغیرہ ۔
پس تحقیق امام مسلم نے اپنی صحیح میں ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے’’ کتاب الصیام ،باب : الصوم لرؤیۃ الھلال‘‘ میں روایت کی ہے:
ان الشھر یکون تسعۃ وعشرین یوما۔
رسول اللہﷺنے فرمایا: مہینہ انتیس دن کا ہوسکتاہے ۔
اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ آپ ﷺنے (پہلے) دونوں ہاتھوں اور اپنی دس انگلیوں سے تین بار اشارہ کیا اور تیسری بار میں اپنا انگوٹھا اپنی ہتھیلی پر لپیٹ لیا تاکہ انگلیاں اس میں نو بار رہیں، یہ اشارہ کرنے کے لیے کہ مہینہ انتیس دن کا ہو سکتا ہے، پھر آپ ﷺنے اپنی دس انگلیوں میں سے کسی چیز کو جوڑے بغیر وہی نشان (دوسری بار) دہرایا، یہ بتانے کے لیے کہ مہینہ تیس دن کا بھی ہو سکتا ہے، یعنی کبھی کبھی ایسا بھی ہو سکتا ہے مہینہ انتیس کا ہو، اور کبھی تیس کا بھی ممکن ہے۔النسائی نے اس حدیث کی تفسیر شعبہ سے، انہوں نے جبل ابن سہیم سے، انہوں نے ابن عمر سے اس طرح روایت کی ہے ۔ [النسائی،شرح سیوطی ،حاشیہ السندی،ج:۴،ص:۱۳۸،۱۴۰]
اس موضوع پر صرف یہی روایت نہیں ہے بلکہ اس موضوع کو مکمل کرنے ، موضوع کی پوری شکل وصورت اور علت کو واضح کرنے والی اور روایات بھی ہیں جو اس مسئلہ کو علت کے ساتھ ہی مربوط کردیتی ہیں،ایسی روایات کے بعض حصے بخاری، مسلم، احمد، ابوداؤد اور نسائی نے بھی ذکر کیے ہیں ،ان سب کو ملاکر مطالعہ کرنے سے کوئی حقیقت واضح طور پر مترشح ہوسکتی ہے۔ان روایات میں سے ایک روایت یہ ہے بخاری کے الفاظ کے مطابق،امام بخاری اپنی سند کے ساتھ لکھتے ہیں :
ان رسول اللہ ﷺ قال:انا امۃ امیۃ لانکتب ولانحسب،الشھر ھکذا وھکذا۔
رسول اللہ ﷺنے فرمایا: "ہم ایک ناخواندہ امت ہیں، ہم مہینے کونہ حساب سے گنتے ہیں اور نہ ہی حساب کے مطابق لکھتے ہیں ۔
یعنی ممکن ہے مہینہ ایک بار انتیس کا ہو،اور دوسری بار تیس کا ہوجائے۔تمام محدثین نے اس روایت کو کتاب الصوم کے تناظر میں ذکر کیاہے، اور امام احمد نے اپنی سند کے ساتھ ابن عمرسے اس روایت کو نقل کیاہے۔
۱۳۔یہ والی حدیث ہمارے موقف کی تائید میں بڑی ہی بنیادی کردار ادا کرتی ہے ،اس حدیث کی حیثیت ایسے ہی ہے جیسے خیمہ اور گھر کی مضبوطی کے لیے ستون کی حیثیت ہوتی ہے ،اگر کسی گھر یا خیمہ میں ستون مضبوط ہوتو گھر بھی پائیدار ہوتاہے ،ہمارے موقف پر یہ والی روایت نہایت قوی دلیل کی حیثیت رکھتی ہے ،اور لطف کی بات یہ ہے کہ تمام محدثین نے اس روایت کو ناصرف روایت کیاہے ،بلکہ اس کی سند کی بھی توثیق کردی ہے۔اس روایت میں رسول اللہ ﷺ نے خود ہی چاند کی روئیت پر اعتماد کرنے کی علت واضح کردی ہے ،وہے ناخواندہ ہونا،اورفلکیاتی حساب سے ناآشناہونا،یعنی عرب عمومی طور پر فلکیاتی حساب میں مہارت نہیں رکھتے تھے،اس عدم مہارت کی بنیاد پر انہیں چاند کی روئیت پر اعتماد کرنا پڑتاتھا،اسی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے بھی چاند کو دیکھ کر روزہ رکھنے اور چاند کو دیکھ کر افطار کرنے کا حکم دیاہے،جو قوم فلکیاتی حساب سے واقفیت نہیں رکھتی تو اس کے لیے تو مہینے کی آمد اور اس کےاختتام کا یہی چاند ہی راستہ ہے ،قمری مہینہ اپنے ایک چکر میں انتیس کا ہوسکتاہے اور دوسرے چکر میں تیس کا بھی ممکن ہے ،یہ وہ تفسیر ہے جو مفسرین وشارحین نے اس حدیث سے سمجھا ہے ،اس ساری گفتگو سے واضح ہوتاہے مسئلہ ہلال علت کے ساتھ ہی وابستہ کیاجاناچاہیے،تاکہ اختلاف پیدا نہ ہوسکے۔
۱۴۔حافظ ابن حجر نے فتح الباری (ج4/127) میں روایت [ہم حساب وکتاب سے کام نہیں لیتے ]کےتحت فرماتے ہیں :
اس روایت سے مراد وہ اہل اسلام ہیں جو اس وقت گفتگو میں شریک تھے،اس سے پوری امت مراد نہیں ہے ،اس وقت جو لوگ موجودتھے ان میں حساب وکتاب کو جاننے والے بہت قلیل مقدار تھے جبکہ مسلمانوں کی اکثریت تھی،اور حساب مراد ستاروں کا حساب اور ان کی حرکت ہے،اہل عرب اس بارے میں بھی کچھ زیادہ نہیں جانتے تھے،محض چند لوگ ہی ہوں گے جو بہت معمولی سی شناسائی رکھتے تھے،اس لیے روزہ وغیرہ کے حکم کو روئیت کے ساتھ معلق کیاہے ،تاکہ حساب وکتاب کی دقت سے بچایا جاسکے اور حکم پر عمل کرنے میں آسانی میسر آسکے [،اب چونکہ ان کے لیے روئیت میں آسانی تھی تو حکم کو بھی روئیت کے ساتھ معلق کیا،اسی طرح دور جدید میں آسانی فلکیاتی حساب کے ساتھ ہے ،اس لیے حکم کو بھی اسی معلق ہوناچاہیے]۔
علامہ عینی علیہ الرحمۃ نے عمدۃ القاری میں اس بات کا ذکر کرتے ہیں کہ شارع علیہ السلام نے روزے کو روئیت کے ساتھ معلق محض رفع حرج کے لیے کیاہے،کیونکہ فلکیاتی حساب وکتاب اہل عرب کے لیے مشکل تھا،شریعت بھی ان کو اس مشقت میں نہیں ڈالنا چاہتی تھی،اس لیے ان کے عرف کا اعتبار کرتے ہوئے انہیں روئیت ہلال کا حکم دیاہے،[جیساکہ ہم نے ابن حجر کا سابق میں نقل کردیاہے]،علامہ عینی نے عمدۃ القاری میں اس جگہ پر ابن بطال کے کلام کو بھی بڑی تفصیل سے ذکر کیاہے ،جس کا خلاصہ یوں ہے، علامہ ابوالحسن علی بن خلف ابن بطال مالکی قرطبی متوفی ۴۴۹ ھ لکھتے ہیں:
ان احادیث میں نبی ﷺنے یہ حکم دیا ہے کہ اگر گرد و غبار یا ابر چھا جانے کی وجہ سے تمہیں چاند نظر نہ آئے تو تم شعبان کے تیس دن پورے کرو کیونکہ مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے۔اس حدیث میں تصریح ہے کہ نبی ﷺنے اس معاملہ میں علوم نجوم اور چاند کی منازل اور اس کے سفر کا اعتبار نہیں کیا کیونکہ اگر آپ روزے کے معاملہ میں اپنی امت کو اس کا مکلف کرتے تو ان پر دشوار ہوتا کیونکہ نجوم اور چاند کے سفر کا علم بہت کم لوگوں کو ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے دین کے اندر کوئی تنگی اور دشواری نہیں رکھی اور نبی ﷺنے اس صورت میں تیس دن پورے کرنے کا حکم دیا ہے اور یہ ایسی چیز ہے جس کی سب کو معرفت ہوتی ہے ،سو آپ نے یہ ہدایت دی ہے کہ جب چاند دکھائی نہ دے تو شعبان کے تیس دن پورے کرنے کے بعد روزے رکھے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ شعبان کی اتنی حفاظت کرتے تھے جتنی دوسرے مہینوں کی حفاظت نہیں کرتے تھے، پس جب آپ ہلال رمضان کو دیکھ لیتے تو روزہ رکھتے، پس اگر مطلع ابر آلود ہوتا تو آپ تیس دن پورے کرتے، پھر روزہ ر رکھتے۔[سنن ابو داؤد : ۳۳۲۵]۔اس سے معلوم ہوا کہ اہل عرب کے کے لیے اس وقت رمضان کے ثبوت کے لیے کسی اور علم کی ضرورت نہیں تھی۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: ہم ایسی امت ہیں جو ( مکتب میں) پڑھی لکھی نہیں ہے، نہ ہم (مہینے کو) لکھتے ہیں نہ (اس کا ) حساب کرتے ہیں، مہینہ اس طرح، اس طرح اور اس طرح ہوتا ہے ( آپ نے دوبار ہاتھ کی انگلیوں سے دس کا اشارہ کیا اور تیسری بار ایک انگل کو دبالیا، یعنی مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے اور تیس دن کا بھی ہوتا ہے۔
[صحیح البخاری: ۱۹۱۳ صحیح مسلم : ۱۰۸۰ الرقم المسلسل :۲۰۴۰۰ سنن ابو دار و ۲۳۱۹ سنن نسائی:۲۱۳۹]
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رمضان یا عید کے چاند کو علوم نجوم یا چاند کی منازل سفر کے حساب سے معین کرنا شریعت میں معتبر نہیں ہے ،شریعت میں معتبر صرف یہ ہے کہ چاند دکھائی دے ،ورنہ پھر شعبان یا شوال کے تیس روزے پورے کیے جائیں۔ ہماری عبادات کو محض واضح علامات کے ساتھ معلق کیاگیاہے،اب اس معاملہ میں سوچنے کی بات یہ ہے کہ آسانی کس میں ہے ،اگر آسانی روئیت میں ہے تو اعتبارروئیت کا ہوگا،اور اگر آسانی حساب میں ہوتو اعتبار حساب کاہوگا۔
[ شرح ابن بطال، ج: ۲ ،ص: ۲۴ ،دار الکتب العلمیہ بیروت،۱۳۲۴ھ]
قسطلانی نے ’’ارشاد الساری شرح البخاری‘‘،ج:۳،ص:۳۵۹ میں ذکر کیا ہے جیسا کہ ابن بطال نے کہا ہے۔السندی نے ’’سنن النسائی‘‘ کے اپنے حاشیہ میں حدیث میں مذکور لفظ "امیۃ" کی وضاحت کرتے ہوئے کہا:یہاں لفظ ’’امیۃ‘‘ سے مراد یہ حساب ووکتاب سے عدم معرفت ہے،جب اس وقت کے عرب میں حساب وکتاب کی قلت تھی تو اسی وجہ سے ان کو ستاروں کے حساب اور پوشیدہ شمسی مہینوں کی مشقت کے ساتھ مکلف نہیں کیاگیا،بلکہ انہیں واضح طور پر نظر آنے والے قمری مہینوں کے ساتھے پابند کیاگیاہے، تاکہ شرعی حکم پر عمل کرنے میں کوئی زیادہ مشقت و کلفت نہ اٹھانی پڑے۔[سنن النسائی، شرح السیوطی،ج:۴،ص:۱۴۰]
۱۵۔ان تمام روایات واقوال سے واضح ہوتاہے کہ اس وقت ہلال کو دیکھنے کا حکم اس لیے نہیں دیا گیاکہ محض چاند کو دیکھنا ہی عبادت ہے،یا پھر وہ عبات کے معنی میں ہے ،بلکہ اس لیے تھا کہ یہ اس وقت آسان اور سہل طریقہ تھا، تاکہ معلوم ہوجائے کہ قمری مہینے کا آغاز واختتام کس طرح ہورہاہے اور آغاز واختتام کیسے اور کس لیے ہورہاہے،یعنی ان ناخواندہ لوگوں کے لیے آسان سے آسان طریقہ ہی یہی تھا کہ ان کو قمری مہینوں کا پابند کیاجائے،اس لیے کہ انہیں فلکیاتی حساب وکتاب کا علم ہی نہیں تھا اور یہ حساب وکتاب اس وقت رکھنا مشکل بھی تھا،اس لیے اس علت کے ساتھ کو معلق کردیاہے۔
اور یہ معنی بذات خود نص شرعی کے مفہوم سے استنباط کیاجارہاہے،رسول اللہ ﷺاور اس کے اہل عرب اس وقت اگر وہ حساب وکتاب کے علم رکھنے والوں میں سے ہوتے تاکہ وہ فلکیاتی اجسام کا سراغ لگاسکیں، اور اصول وقواعد مرتب کرکے ان کے مطابق دنوں اور مہینوں کی تعیین کرسکتے ہیں اور ان کی تعیین میں کوئی اختلاف وانتشار بھی نہیں ہوتا ،اور یہ ترتیب بھی قادر مطلق اور اللہ تعالیٰ کے قوانین کی دریافت کرنے کے اصولوں پر مبنی ہوتی،ایسے ہی ان حساب میں کوئی رد و بدل بھی واقع نہ ہوتا،اور مشاہدہ ان کے حساب کی موافقت بھی کرتا ہوتا،اورانہیں ان اصولوں کے ذریعے سے پہلے سے ہی معلوم ہوجاتاکہ مہینہ اتنے اتنے دنوں کا ہوگا تو ان کے فلکیاتی حساب کا شارع علیہ السلام اعتبار کرتے اور انہیں فلکیاتی حساب کا پابند کیاجاتا،فلکیاتی حساب سے جب معلوم ہوجاتاکہ پچھلا مہینہ ختم ہوچکاہے اور اگلا ماہ شروع ہوچکاہے تو ایسی صورت میں وہ فلکیاتی حساب کو اختیار کرنے کے قابل ہوجاتے ،اس سے واضح ہوتاہے کہ ہر وہ شخص جو اس علم کو اس کے تمام اصول وضوابط سے جانتا ہو،اور مناسب نظم وضبط سے اس درجے تک حاصل کرے کہ وہ اس قابل ہوجائے کہ قابل اعتماد اور اس کی صداقت کا یقین دلایاجاسکے۔
اب اس میں کوئی شک نہیں ہلال کو ثابت کرنے میں دو گواہوں پر بھروسہ کرنے سے زیادہ قابل اعتماد اور زیادہ درست ہے جو دھوکہ دہی سے محفوظ نہیں ہیں، اور نہ ہی کسی پوشیدہ ذاتی مقصد یا مفاد کے لیے جھوٹ بولنے سے محفوظ ہے، اب چاہے ہم ان کی تصدیق کے لیے کتنی ہی تحقیق کریں،مگر ان میں کذب وصدق کا پھر بھی احتمال رہے گا،مگر ظاہری حالات ان کی سچائی کو ظاہر کرتی ہے،یہی معاملہ فلکیاتی حساب کے میں بھی ہوگا،بلکہ گواہوں میں صدق وکذب کا احتمال زیادہ ہوتاہے جبکہ فلکیاتی حساب میں یہ احتمال کم سے کم ہوجاتاہے،اگر موسم خراب ہونے کی صورت میں ایک گواہ کی گواہی پر اعتمادکرنے سے زیادہ بہتر ہے ،آپ فلکیاتی حساب پر اعتماد کریں ،یہ وہ بات ہے جو میرے نزدیک معتبر ہے کیونکہ ایسی صورت میں روئیت مشکل ہے اور فلکیاتی حساب آسان ہے ،لہٰذا ہر ایسی صورت جہاں فلکیاتی حساب آسان ہو،اور اس کے مقابلے میں آنےو الی چیز مشکل ہے تو ایسی صورت میں فلکیاتی حساب کو ہی اختیار کرنا عین شریعت ہوگا۔
۱۶۔فلکیاتی حساب پر اعتماد کرنا یہ کوئی آج کے علماء کا معمول نہیں ہے ،بلکہ متقدمین میں بھی پایاجاتاتھا،حالانکہ زمانہ قدیم میں فلکیاتی علم آج کے دورکی طرح منظم ومنضبط نہیں تھا،اس وقت ہی کسی نے کہاتھا کہ فلکیاتی حساب کا عالم اپنے علم کے مطابق عمل کرتاہے،یہ بات مطرف بن عبدا للہ کے متعلق کہی جاتی ہے ،انہوں نے کہاہے ہے اور یہ تابعین میں سے شمار ہوتے ہیں ،انہی سے مالکیہ بہت بڑے امام الحطاب نے اپنی کتاب مواھب الجلیل کی جلد۲،اور صفحہ ۲۸۸ پر نقل کیاہے۔اسی طرح علامہ عینی حنفی اپنی کتاب عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں بعض حنفیہ کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ’’ بعض مسائل میں منجمین کے قول پر اعتماد کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ،اس سے مراد فلکیاتی حساب کے علماء ہی ہیں ،جیساکہ ان کے سابقہ بیان سے بھی واضح ہوتاہے ،اسی موقف کو ابن عابدین شامی نے اپنے رسائل کی[ جلد:۱،صفحہ ۲۴۴،]پر بھی ذکر کیاہے۔
القشیری نے کہا: اگر فلکیاتی حساب سے یہ معلوم ہوجائے ہے کہ ہلال افق سے اس طرح طلوع ہوا ہے کہ اسے دیکھا جا سکتا ہے، ایسی صورت میں جب بادلوں جیسی رکاوٹ کی کوئی چیز نہ ہوتو ایسی حالت میں وجوبی حکم متحقق ہوجائے گا،کیونکہ شرعی سبب موجود ہے،جب شرعی سبب موجود ہواور شئے بھی متحقق ہوجائے تو یقینا پھر شرعی حکم متعین ہوجاتاہے،اور یہ بھی کہتے ہیں کہ ہلال کے متعین ہونے کے لیے روئیت کوئی حقیقی لزومی شرط نہیں ہے ،بلکہ یہ ایک اضافی اور نسبتی شرط ہے،یہی وجہ ہے فقہاء نے اس بات پر اتفاق کیاہے اگر کوئی ایسا قیدی جو کال کوٹھڑی میں ہو اور اسے یہ حتمی ذرائع سے معلوم ہوجائے کہ شعبان المعظم کا مہینہ مکمل ہوچکاہے،یا پھر اپنے علمی وفکری اجتہاد سے اس بات کو معلوم کرلے کہ آج کا دن واقعی رمضان المبارک ہی ہے تو ان دونوں صورتوں میں اس پر رمضان المبارک کا روزہ واجب ہے۔[عمدۃ القاری،ج:۱۰،ص:۲۷۲]
اسی طرح القلیوبی نے العبادی کی سند سے بعض شافعیوں سے یہ قول نقل کیا ہے : ’’جب فلکیاتی حساب قطعی اسلوب میں ہلال کی عدم روئیت پر دلالت کررہاہو،تو ایسی صورت میں روئیت ہلال کاقول معتبر نہیں ہوگا اور اور گواہ کی شہادت کو رد کردیاجائے گا، اس کے بعد القلیوبی یہ بھی کہتے ہیں کہ فلکیاتی حساب واضح وظاہر اور بین ومبرہن دلیل ہے کہ اس دن رمضان المبارک کا روزہ نہیں ہوگا،اور فلکیاتی حساب کی مخالفت وہ ہی شخص کرسکتاہے جس میں تکبر ،عناد اور ہٹ دھرمی ہو۔[القلیوبی،ج:۲،ص:۴۹]
[اس طرح کے تمام اقوال کو الموسوعۃ الفقہیہ الکویتیہ کی جلد:۲۲،صفحہ :۳۴ اور کلمہ روئیت الہلال کے تحت دیکھا جاسکتاہے]
۱۷۔ اور یہ بات ہر اس ذی علم و فہم شخص پر واضح ہے جو تھوڑی سی بھی دین کی فہم وسمجھ رکھتاہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں موجودہ مہینے کو تیس دنوں کے ساتھ مکمل کرنے کا حکم دیاہے، جب چاند کے واضح طورپر نظر آنے میں کوئی دقت ہو،یا چاند مخفی ہوجائے ،بادلوں ،دھند یاکسی اور سبب سے تو ایسی صورت میں انتیس دن کی بجائے تیس دنوں کے ساتھ مہینے کو مکمل کریں اس وضاحت کا یہ مطلب نہیں ہےکہ حقیقتا یہ والا ماہ ہے ہی تیس دنوں کا، بلکہ موسم صاف ہونے کی صورت میں نیا ہلال پیدا ہو سکتا ہے اور نظر بھی آ سکتا ہے، اور پھر اگلے دن جسے ہم نے آخری تیسواں دن شمار کیاہے ، اب یہ والا تیسواں دن درحقیقت ہمارے پاس نئے مہینے کا پہلا دن ہو گا،اب اس تیسویں دن میں روزہ رکھنا یا افطار کرنا ہمارے لیے دونوں معاملے مساوی ہوچکے ہیں ،لیکن چونکہ ہم اس بصری روئیت سے نہیں جان سکتے ،کیونکہ معاملہ ہم پر شدید انداز میں مخفی ہے اور عوارض کے لاحق ہونے کی وجہ سے روئیت بصری ممکن ہی نہیں رہی ہے اور ہمارے پاس کوئی اور ذریعہ بھی نہیں ہے جس سے اس ماہ کی تاریخ کا تعین ہوسکے تو ایسی صورت میں شرعی مجبوری کے تحت ہم شعبان کے تیس دن ہی پورے کریں گے ،حالانکہ حقیقت میں شعبان انتیس دن کا تھا،مگر یہ تیسواں دن شرعی عذر کی وجہ سے شعبان میں ہی شامل ہوگیاہے،مگر حقیقت واقعہ کے اعتبار سے ہم رمضان المبارک کے پہلے دن کا روزہ نہیں رکھا،مگر چونکہ مجبور ہیں تو شریعت نے ہمیں اس سے معافی دے دی ہے ،اس لیے کہ شریعت کسی جان پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتی ۔
یہ ہے سابقہ تمام مضمون کا فقہی ،علمی ،فکری اور عقلی تجزیہ ،اس جائزہ سے تیس دنوں کو مکمل کرنےکا مفہوم اس لیے متحقق ہورہاہے کہ روئیت بصری اس وقت مشکل ہے،اس عدم روئیت نے ہمیں اگلے مہینے کی بجائے پچھلے مہینے کی طرف دھکیل دیاہے،اور یہ معاملہ شدید طور پر مشکل ہوچکاہے کہ یوم الشک پچھلے مہینے کا تیسواں دن ہے یا پھر اگلے مہینے کا پہلا دن ہے،جب امر واقع متعین نہیں ہورہاہے تو مجبورااسی ماہ کو جاری رکھاجائے گا اور اگر کسی خارجی امر سے یہ بات واضح ہوجائے کہ آج پچھلا ماہ ختم ہوگیاہے توایسی صورت میں اس خارجی امر کا اعتبار کرنے میں کوئی دقت نہیں ہے ،یہ بھی واضح ہوتاہے کہ پچھلے ماہ کا تیسواں دن شمار کرنا یہ امر ضروری نہیں ہے بلکہ امرمجبوری ہے ،وہ ہے عدم روئیت ،لہٰذا یہاں سے اس مسئلہ کا علت ومعلول کے ساتھ منسلک ہونے کی وجہ متعین ہوجاتی ہے۔
۱۸۔اور جب یہ بات بھی بدیہیات میں شامل ہے کہ نئے چاند کا دیکھنا اسلام میں عبادت محض نہیں ہے بلکہ یہ وقت کو جاننے کا ذریعہ ہے اور ایک ناخواندہ قوم میں یہ واحد ممکن ذریعہ تھا جسے فلکیاتی حساب وکتاب سے کسی بھی طرح کا کوئی شغف نہیں ہے ،اسی ناخواندگی کی وجہ سے،اس وقت کے حالات کے اعتبار سے شریعت نے روئیت بصری پر بھروسہ کرنے کا حکم دیاہے،اب روئیت بصری پر بھروسہ کرنے کی علت ناخواندگی ہے،اگریہ علت دور ہوجائے جس علت پر حدیث نبوی ﷺ بطور نص وارد ہے ،تو ایسی صورت میں کونسی چیز یا کونسا امر ایساہے جو ہمیں فلکیاتی حساب وکتاب کو اختیار کرنے سے روکتی ہے ،حالانکہ روئیت بصری میں شبہ کا احتمال ہے مگر فلکیاتی حساب میں تو علمی تیقن ہے، کیونکہ اس علم کے ذریعے سے ہم اور بہت سارے امور کی معرفت حاصل کررہے ہیں ،لہٰذا فلکیاتی حساب وکتاب کو نئے چاند کا ذریعہ مان لینے سے ،بادلوں اور دھند وغیرہ عوارض کی وجہ سے انتشار وافتراق بھی پیدا نہیں ہوگا،اور شرعی حکم میں شک بھی پیدا نہیں ہوگا ،لہٰذا ان تمام دلائل سے واضح ہوتاہے کہ فلکیاتی حساب کو اختیار کرنے میں کوئی شریعت کی کوئی چیز مانع نہیں ہے۔
۱۹۔میرے نقطہ نظر سے فلکیاتی حساب کو نظر انداز کرنا حیرت انگیز ہے،دراصل سربرآوردہ علماءبورڈ کا موقف تضاد کا شکار ہے۔بورڈ ایک طرف تو نمازوں کے اوقات کے سلسلے میں فلکیاتی حساب پر انحصار کا قائل ہے اور دوسری جانب رویت ہلال کے سلسلے میں فلکیاتی حساب پر انحصار کی مخالفت کررہا ہے۔ رویت ہلال کے سلسلے میں فلکیاتی حساب پر انحصار کے حامی افراد کی رائے یہ ہے کہ اگر فلکیاتی حساب کو رویت ہلال کے حوالے سے معتبر مان لیا جائے تو سب سے پہلے تو مسلم دنیا میں اس حوالے سے پایا جانیوالا فقہی تنازع ختم ہوجائے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس کی بدولت رمضان کے روزوں ،عیدالفطر اور حج کی تاریخیں آسانی سے متعین ہوسکیں گی۔ اس حقیقت سے پورا جہاں واقف ہے کہ حج اور عمرے سے پچاسوں اقتصادی سرگرمیاں جڑی ہوئی ہیں، لاکھوں حاجی دنیا کے تمام علاقوں سے حج کے لیے ارض مقدس پہنچتے ہیں ، یہاں مملکت میں رویت ہلال کے تعین اور عدم تعین سے ہر گھر کے افراد جڑے ہوئے ہیں ،تمام گھر ،کارخانے، نجی و سرکاری شعبے،اسکول ، کالج اور یونیورسٹیاں اس سے جڑی ہوئی ہیں ، فضائی کمپنیوں کی پروازوں کے فیصلے اسی پر معلق رہتے ہیں ۔ مکہ مکرمہ ، مدینہ منورہ میں ہوٹلوں کے ریزرویشن کے مسائل اسی رویت سے جڑے ہوئے ہیں۔ہزاروں افراد اپنی زندگی کے دسیوں پروگرام محض اس وجہ سے طے نہیں کرپاتے کیونکہ انہیں حج کی تاریخ پہلے سے معلوم نہیں ہوپاتی یا رمضان اور عید کی تواریخ کا علم نہیں ہوتا۔
۲۰۔فلکیاتی حساب کے نتائج پر عمل قرآن و سنت کے منافی نہیں،اس سلسلے میں کئی امور بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔پہلی بات یہ ہے کہ فلکیاتی حساب پر عمل نبی کریم ﷺکے اس ارشاد گرامی کے منافی نہیں جس میں فرمایا گیا ہے”ہم ناخواندہ قوم ہیں نہ لکھنا جانتے ہیں اور نہ حساب کتاب کرنا،مہینہ ایسے ہوتا ہے اور ایسے ہوتا ہے“رسول اللہ ﷺنے اس ارشاد میں اپنے دور کے مسلمانوں کی حالت کو بیان کیا ہے۔اس وقت اکثر مسلمان ناخواندہ تھے ، اب فرزندان اسلام کی یہ حالت تبدیل ہوچکی ہے،اب مسلمان امی نہیں رہے،مسلمانوں میں میڈیسن، انجینیئر نگ ، فزکس ،فلکیات اور سائنس کے ماہر کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ٹیکنالوجی اور ایٹمی توانائی کے ماہرین بھی ہیں لہذا ایسی حالت میں ہمیں شرعی امور میں ایسے روایتی اسباب پر انحصار نہیں کرنا چاہیئے جن کے نتائج ظن و تخمین کے حامل ہوں ۔یہ انحصار ایسی حالت میں بدرجہ اولیٰ غلط ہوجاتا ہے جبکہ ہمارے پاس یقینی نتائج دینے والے ذرائع مہیا ہوں۔دوسری بات یہ ہے کہ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ کبھی کبھی ماہرین فلکیات دعویٰ کرتے ہیں کہ فلاں تاریخ کو چاند سورج غروب ہونے کے بعد پیدا ہوگااس کے باوجود چاند غروب آفتاب کے بعد دیکھ لیا جاتا ہے اگر ماہرین فلکیات کے دعوے پر انحصار کرلیا جائے تو ایسی صورت میں ننگی آنکھ سے دیکھی جانے والی حقیقت کو کیسے جھٹلایا جاسکتا ہے اس سے یہ اشکال بھی پیدا ہوتا ہے کہ فلکیاتی حساب کتاب کے بارے میں یہ دعویٰ کہ وہ مبنی بر حقیقت ہوتا ہے، غلط ثابت ہورہا ہے۔اسکے جواب میں یہ عرض کردینا ضروری ہے کہ ماہرین فلکیات اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ سال میں ایک بار ایسا ہوتا ہے جبکہ چاند سورج غروب ہونے کے بعد پیدا ہوتا ہے اور غروب کے بعد اسے دیکھا جاسکتا ہے۔یہ بات ایسی نہیں کہ ماہرین فلکیات کی نظروں سے اوجھل ہو۔تیسری بات یہ ہے کہ یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ماہرین فلکیات مہینے کی شروعات متعین کرنے کے سلسلے میں متفق نہیں ،خود ان میں اختلاف ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ماہرین فلکیات کے درمیان چاند کی پیدائش کے لمحے پر کبھی اختلاف نہیں ہوتا اسی طرح چاند کے سورج سے اقتران کے لمحے میں کبھی اختلاف نہیں ہوتا اس حوالے سے اس کے برعکس جو بھی کہا جاتا ہے وہ غلط ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ چاند کی پیدائش اور سورج سے اس کے اقتران کا معاملہ ماہرین فلکیات کے درمیان متفقہ ہے۔چوتھی بات یہ ہے کہ فلکیاتی حساب کتاب سے استفادے پر یہ اعتراض بھی کیا جاتا ہے کہ کبھی کبھی چاند تواتر سے دیکھا جاتا ہے اور ماہرین فلکیات اسکاانکار کرتے ہیں ۔ ماہرین اسکے جواب میں یہ کہتے ہیں کہ کبھی کبھی چاند پیدا ہوجاتا ہے اور سورج غروب ہونے سے پہلے ہی روپوش ہوجاتا ہے لیکن سورج سے اس کا اقتران نہیں ہوپاتا لیکن سورج سے اسکا اقتران سورج غروب ہونے سے کچھ دیر پہلے ہی ہوا ہوتا ہے۔ایسی حالت میں چاند حقیقت میں اپنی پیدائش سے پہلے نظر آتا ہے لیکن یہ رویت حقیقی نہیں ہوتی۔پانچویں بات یہ ہے کہ ماہرین فلکیات اپنے علم کی بدولت چاند کی پیدائش کا منٹوں کے ساتھ تعین کرلیتے ہیں اس حوالے سے ماہرین فلکیات میں کوئی اختلاف نہیں ، ماہرین میں چاند کی پیدائش کے بعد اسے دیکھے جانے کے امکان کے بارے میں اختلاف ہوتا ہے ۔چھٹی بات یہ ہے کہ مہینوں کی شروعات اور اختتام کے سلسلے میں فلکیاتی حساب پر عمل درآمد کا مسئلہ عصر حاضر کی پیداوار نہیں بلکہ بعض فقہاءاس پر قدیم زمانے سے اظہار خیال کرتے رہے ہیں۔بعض قدیم علماءنے فلکیاتی حساب کتاب پر عمل کا فتویٰ بھی دے رکھا ہے۔ساتویں بات یہ ہے کہ ہم فلکیاتی حساب سے مہینوں کی شروعات کے فیصلے کے سلسلے میں جزوی استفادے کے قائل ہیں کیونکہ ہر حالت میں فلکیاتی حساب کے مطابق رمضان المبارک کی آمد اور اختتام کا فیصلہ قرآن و سنت کے منافی ہے۔
متقدمین علماء کا فلکیاتی حساب پر اعتماد نہ کرنے کے اسباب ووجوہات:
۱۔فقہاء،محدثین،مفسرین اور شارحین نے روزہ رکھنے اور افطار کرنے کے لیے قمری مہینوں کے آغاز اور اختتام کو جاننے کے لیے فلکیاتی حساب پر انحصار کرنے سے انکار کیا ہے اور یہ لوگ اس بات پر مصر ہیں کہ شریعت نے ہمیں صوم و افطار اور عبادات کے اوقات کی تعیین کے لیے فلکیاتی حساب وکتاب کی معرفت کا پابند نہیں کیا،اور نہ ہی فلکیاتی حساب کی مشقتیں ہم پر ڈالی ہیں ،بلکہ شریعت نے چند واضح علامات ونشانات کے ساتھ ہمیں احکام وعبادات کا مکلف بنایاہے ،اب ان علامات کو جاننے کےلیے فلکیاتی حساب کے ماہرین اور غیر ماہرین دونوں ہی برابر ہیں ،جیساکہ ہم نے سابق میں عینی،قسطلانی،ابن بطال،اورسندھی وغیرہ جلیل القدر علماء کی آراء نقل کی ہیں ،ان احکام وعبادات کو چند علاماتی اوقات کےساتھ متعین کرنے کی حکمت بالکل واضح ہے کہ شریعت محض کسی ایک زمانہ کے لیے نہیں ہے ،بلکہ شریعت کے احکام ابدی ہیں اور ہر زمانہ کےلوگوں کے اسباب ووسائل کے اعتبار سے ہیں،ان سب کے ساتھ شریعت کا بنیادی بھی پیش نظر رہے کہ انسان کو مشقت میں متبلاء نہیں کرنا ،بلکہ ممکنہ وسائل میں آسانی کےساتھ شریعت پر عمل در آمد ہونا ہے۔
اس کے باوجود مناسب یہی ہے کہ ہم یہاں متقدمین علماء کافلکیاتی حساب وکتاب کو نہ اختیار کرنے کی علتوں اوراسباب کوواضح کریں ،تاکہ عدم اعتماد کی علت متعین ہوسکے اور جس اساس وبنیاد پر وہ رد کررہے تھے ،وہ بھی واضح ہوسکے ،اس کے ساتھ یہ بھی ذہن نشین رہے کہ فلکیاتی حساب وکتاب کی جو حیثیت یا اس علم کی قطعیت وظنیت جس آج مسلم شدہ حقیقت ہے ،اس طرح زمانہ ماضی میں نہ تھی ،زمانہ ماضی میں فلکیاتی حساب ظن وتخمین کے دائرہ سے نکل کر حقیقت نہیں بناتھا ،جبکہ ہمارے عہد میں یہ علم ایک مسلم شدہ حقیقت بن چکاہے اور اس سے اور بہت سارے معاملات ومسائل حل ہورہے ہیں ۔
۲۔ تحقیق ابن حجر نے ابن بزیزہ کی سند سے یہ بھی نقل کیا ہے کہ ’’فلکیاتی حساب وکتاب کا اعتبار کرنا یہ ایک باطل مذہب ہے‘‘ اور یہ بھی فرماتے ہیں کہ شریعت نے علم نجوم میں غوور وخوض کرنے سے منع کیاہے ، کیونکہ یہ ظن وتخمین اور اٹکل اور اندازے پر مشتمل ہوتاہے ،اور اس میں قطعیت ، لزومیت،یہاں تک کہ اس میں ظن غالب کو بھی کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔
اور ابن حجر اور ابن بزیزہ کے قول سے معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ ماضی میں فلکیاتی حساب وکتاب پر عدم اعتماد کرنے کی بنیادی علت ،اس علم کا محض ظن وتخمین اور اندازے پر مبنی ہوناہے،اس میں قطعیت اور ظن غالبیت کے عنصر کی کمی کی وجہ سے اس پر قدیم زمانہ میں اعتماد نہیں کیاجاتاتھا،کیونکہ اس زمانہ میں اس علم کے جدید آلات ایجاد نہیں ہوئے تھے ،جس کی بنیادپر اس میں عدم قطعیت کا عنصر شامل رہتاتھا، اور یہی وجہ تھی کہ اس کے نتائج بھی مختلف برآمد ہوتے تھے ،اور اختلاف نتائج مکلفین میں اختلاف ونزاع کا باعث بن جاتا،اسی وجہ سے قدیم زمانہ میں اس پر اعتماد نہیں کیاجاتاتھا۔
۳۔ الزرقانی نے اپنی موطا کی شرح جلد:۲،صفحہ :۱۵۴ پر ،امام نووی علیہ الرحمۃ سے نقل کرتے ہوئے لکھاہے:فلکیاتی حساب پر اور نجومیوں کی کتاب پر عدم اعتماد کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان میں تخمین و اندازہ اور اٹکل ہوتاہے ،ہاں البتہ قبلہ کی جہت اور نماز کے اوقات کومتعین کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ،بلکہ فلکیاتی حساب وکتاب کے ذریعے سے نماز کے اوقات کو متعین کرنا اہل علم میں معتبر ہے۔
۴۔اسی طرح ابن بطال نے بھی جو کچھ ذکر کیاہے ،وہ بھی اسی موقف کی تائید کرتاہے : ابن بطال کہتے ہیں یہ والی حدیث ’’ لانکتب ولانحسب‘‘ یعنی ہم ایسی قوم ہیں جو حساب وکتاب کرنا نہیں جانتی ‘‘،نجومیوں کے فلکیاتی حساب وکتاب کے قوانین کو منسوخ کرتی ہے اور یہ روایت اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ ہلال کے معاملے میں روئیت بصری پر اعتماد کیاجائے،ہاں البتہ ہمارے لیے مناسب یہی ہے کہ ہم فلکیاتی حساب وکتاب کے اصولوں پر غور وفکر کرتےرہیں یہاں تک کہ وہ مشاہداتی اصولوں کی حیثیت اختیار کرلیں ،تاکہ اس میں جو ظن وتخمین کا عنصر ہے وہ ختم ہوجائے اور یہ مخفی چیزوں کو اپنے اصولوں وآلات کے ذریعے سے منکشف کرسکے ،ہاں البتہ اس وقت اس کی یہ صورت نہیں ہے تو ہم سرے دست اس سے اجتناب کریں گے اور اس پر اعتماد کرنے سے پرہیز کریں گے ،کیوں کہ ابھی اس پر اعتماد کرنے میں کلفت ومشقت ہے ،اور شریعت ہمیں مشقت وکلفت میں مبتلاہونے سے روکتی ہے۔
[عمدۃ القاری،عینی ،ج:۱۰،ص:۲۸۷]
۵۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اپنے فتاوی میں فلکیاتی حساب وکتاب پر عدم اعتماد کے جواز پر بات کرتے ہوئے کہا ہے:اللہ عزوجل نے ہلال کے مطلع ہونے کے لیے کوئی سیدھا سادھا اور لگا بندھا اصول اور فلکیاتی حساب کو مقرر نہیں کیاہے،اور نہ ہی چاند کی منازل کو متعین کیاہے،بلکہ یہ تعیین اللہ تعالیٰ نے انسانوں پر چھوڑ دی ہے کہ انسان ہی فلکیاتی حساب کے ذریعے سے اس کی تعیین کریں گے اور یہ تعیین انہیں ہلال کے معاملے کو سمجھنے کے لیےزیادہ قریب ہوسکتی ہے۔[الفتاوی،ج:۲۵،ص:۱۸۳]
ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں :یہ وہ اسباب ہیں جو اس بات کا تقاضہ کرتے ہیں کہ ہم ہلال کے معاملے میں فلکیاتی حساب وکتاب پر اعتماد نہ کریں ۔ اس بحث کا ابن تیمیہ نے اپنے فتاوی کی اسی فصل میں کئی مقامات پر دہرایابھی اور بھی بہت سارے پہلووں پر بات کی ہے، مزید تفصیل کے لیے ان کے فتاوی کی مذکورہ فصل کو دیکھنا مناسب ہوگا۔ [الفتاوی،ج:۲۵،ص:۱۸۱]
۶۔شیخ الاسلام رحمہ اللہ کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے، کہ وہ قمری مہینوں کے ابتدائی ایام کو جاننے کے لیے فلکیاتی حساب پر اعتماد کرنا مناسب سمجھتے ہیں، کیونکہ وہ اس کونجومیوں اور ستاروں کی حرکتوں کے ماہرین کے قابیل سے سمجھتے ہیں ،جس طرح علم النجوم والے اپنے علم کی بدولت زمین پر ہونے والے واقعات اور ستاروں کی حرکتوں اور ان کی باہمی رفاقتوں سے قسمت کےاحوال بیان کرتے ہیں ،اس سے واضح ہوتاہے کہ اس علم کا کسی نا کسی درجہ اعتبار ممکن ہے ،اسی فصل کے آخر میں شیخ الاسلام نے اسی موضوع پر مزید کلام کرتے ہوئے فرمایاہے :’’پس نجومیوں کے احکام عقلی طور پر باطل ہیں اور شرعی طور پر حرام ہیں ،کیونکہ فلکیاتی حرکت کا ان کے احکام پر کوئی اثر نہیں ہے ،اور نہ ہی ان سے حاصل شدہ حکم کوئی مستقل حیثیت رکھتاہے ،بلکہ یہ محض ظن وتخمین پر مبنی ہے ،بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ ان کی تاثیر سے ملائکہ وغیرہ کی تاثیر زیادہ اشد ہے ،ایسے ہی اجسام طبعیہ کی تاثیر بھی ان نجومیوں کے بیان کردہ تاثیر سے زیادہ سخت ہے ،لہٰذا ان کا اعتبار کرنا کسی بھی طرح درست نہیں ہے‘‘۔
۷۔اور شیخ الاسلام پھر کہتے ہیں کہ عراف میں نجومی ،کاہن اور دیگر وہ تمام لوگ شامل ہیں جو لفظا و معنی اسی طرح کی پیشن گوئی کرتے ہوں، اور پھرفرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے ستاروں سے علم کا کچھ حصہ لیا گویا اس نے سحر کا ہی کچھ حصہ لیاہے،اس روایت کو ابوداؤد اور ابن ماجہ نے روایت کیاہے۔ اس روایت سے واضح ہوتاہےکہ علم نجوم کے تناظر میں احکام کواخذ کرنے کی تحریم کو بیان کیاگیاہے،اور اسی طرح ابن تیمیہ یہ بھی کہتے ہیں ان کی حرمت کی عقلی وجہ بھی ہم نے بیان کردی ہے ،اور علم نجوم کے ماہرین میری اس رائے کی موافقت بھی کرتے ہیں ، اور ابن تیمیہ یہ بھی کہتے ہیں علماء وفقہاء روئیت ہلال اور اس کے دیگر احکام کو علم نجوم کے تناظر میں حل کرنے کی حرمت پرمتفق ہیں ،اور یہ بھی واضح ہوتاہے کہ عقلی دلائل اور شرائع نصوص فلکیاتی حساب کی ممانعت پر متفق ہیں ۔[الفتاوی،ج:۲۵،ص:۱۹۸،۲۰۱] ۔
۸۔شیخ الاسلام ان لوگوں پر سختی کرتے تھے اور ان کی مذمت کرتے تھے جو ہلال کے معاملے میں فلکیاتی حساب پر اعتماد کرتے ہیں اورکہتے ہیں :جو ہلال کے مسئلہ میں فلکیاتی حسا ب وکتاب پر اعتماد کرتاہے وہ اس امت کے حکم میں شامل ہی نہیں ہے ،بلکہ وہ مومنین کے علاوہ کسی اور کے راہ کی اتباع کرنے والے ہیں ۔[الفتاوی،ج:۲۵،ص:۱۶۵،۱۷۴]
۹۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی رائے ہے کہ قمری مہینوں کی ابتدادریافت کرنے کے لیے فلکیاتی حساب پر اعتماد ان نجومیوں اور کاہنوں کے عمل کے قبیل سے ہے جو قسمتوں کے احوال اور حادثات عالم کو ستاروں کی گردش سے جوڑتے ہیں۔[ الفتاویٰ ،ج:۲۵،ص:۱۸۳]
اس موضوع پر میری رائے :
سابقہ تمام علماء،محدثین،فقہاء اور محققین کی آراء کے مجموعہ سے چار باتیں میں واضح کرنا چاہوں گا،تاکہ آیات احادیث نبویہﷺ کا درست مفہوم سامنے آسکے۔
پہلی بات:اس موضوع پر وارد ہونے والی تمام روایات کو جمع کریں اور ان کو ایک دوسرے کے ساتھ ملاکر مطالعہ کریں،تو نتیجہ یہ نکلتاہے کہ یہ تمام روایات صوم وافطار کے حوالہ سے ہی ذکر کی گئی ہیں،ان تمام روایات میں ،امر رسول ﷺ یہ ظاہر ہوتاہے کہ مسلمان مہینے کے شروع اور آخر میں چاند دیکھنے کے لیے روئیت بصری پر اعتماد کرتے ہیں ،تاکہ اس روئیت ہلال کی وجہ سے صوم وافطار کا آغاز واختتام کرسکیں، اور ان روایات میں روئیت بصری پر اعتماد کی علت یہ بتائی گئی ہے کہ وہ ایک ناخواندہ قوم سے تعلق رکھتے ہیں ہے جو نہ لکھتی ہے اور نہ ہی فلکیاتی حساب کرتی ہے،یعنی ان کے پاس فلکیاتی حساب و کتاب کو جاننے کا کوئی مضبوط اور قطعی ذریعہ نہیں تھا اور نہ ہی وہ اس علم کے اصول وضوابط سے شناسائی رکھتے تھے،گر انہیں اس بارے میں گہرائی کے ساتھ شناسائی ہوتی تو وہ اس کا ضرور سہارا لیتے اور ان قوانین کو بھی دریافت کرلیتے کہ کب مہینے کا آغاز ہونا اور کب اختتام پزیر ہونا ہے،اور یہ بھی معلوم کرلیتے کہ کونسا ماہ انتیس دن کا ہوگا اور کونسا تیس دن کا ہوگا،مگر چونکہ اس علم سے انہیں شناسائی نہیں تھی ،اس لیے وہ اس سے تعامل بھی نہیں کرتے تھے،عدم شناسائی کی وجہ سے ہی وہ فلکیاتی حساب و کتاب پر اعتماد نہیں کرتے تھے ،بذات خود اس علم کے حرام ہونے کی وجہ سے نہیں کرتے تھے اور اس میں حرمت بھی اضافی ونسبتی ہے ،کوئی حقیقی نہیں ہے۔
یہ مفہوم اس بات پر دلالت کرتاہے کہ اگر ان کے پاس فلکیاتی حساب وکتاب کا علم زیادہ ہوتاہے،اور وہ ان اصولوں کو دریافت کرچکے ہوتے جن محکم اصولوں پر اس کائنات کو بنایاگیاہے اور ان کی روشنی میں فلکیاتی حساب وکتاب کا ایسا علم منظم کرلیتے جس کی وجہ سے کسی بھی طور پر بھی کوئی اختلاف نہ ہوتا اور نہ ہی ان اصولوں کی انطلاقی صورتوں میں کوئی تضاد ہوتا، اور جبکہ ہمارے ہاں یہ علم ایسی صورت میں ،منظم اصولوں کے ساتھ موجود ہے، اور ان قوانین واصولوں کے ذریعے ہر ماہ کے آغاز واختتام پر ہلال کی پیدائش کا علم ہوجاتا ہےور یہ بھی واضح ہو جاتاہے کہ کس وقت چاند کی پیدائش ممکن ہے ،اور کس وقت اس چاند کی روئیت بصری ممکن ہے، اور اگر یہ اصول نہ ہوں تو پھر فضاء کی الودگی،دھند اور بادلوں کی وجہ سے چاند کی روئیت بصری ویسے ہی ممکن نہیں رہے گی ،لہٰذا فلکیاتی حساب وکتاب کی رعایت کرنے سے چاند کی پیدائش اور مہینے کا آغاز و اختتام معلوم کیا جاسکتاہے ،اب اس صورت میں فلکیاتی حساب پر اعتماد کرنے میں کوئی شرعی ممانعت بھی موجود نہیں ہے اور مسلمانوں کو اثبات ہلال جیسی مشکل سے بھی نکالا جاسکتاہے،اگر فلکیاتی حساب وکتاب کا سہارا نہ لیاجائے تو ممکن ہے مسلمانوں میں حیرت انگیز اختلافات اور شدید ترین فتنے بھی پھوٹ سکتے ہیں ،کوئی کہے کل رمضان ہے،کوئی کہے گا پرسو رمضان ہے ،اس طرح تین دن تک مسلمانوں میں اثبات ہلال کے حوالہ سے اختلافات رونما رہیں گے اور یہ مسلمانوں کے لیے نہایت شرمناک ہے ،مسلمانوں کے مختلف شہروں اور ممالک کا یوں ہی انتشار میں مبتلاء ہونا بھی کوئی مناسب عمل نہیں ہے اور اس سے غیر مسلموں میں اسلام کی شان وشوکت اور رعب ودبدبہ بھی جاتارہے گا۔
دوسری بات: متقدمین فقہاء جو اس بات کی تصریح کرتے ہیں کہ صوم و افطار کے لیے قمری مہینے کے آغاز کے تعین میں فلکیاتی حساب وکتا ب پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے ،اور وہ روئیت ہلال پر اعتماد کرتے ہیں کیونکہ وہ اس کو آسان اور عام فہم گردانتے ہیں ،جبکہ فلکیاتی حساب وکتاب کو مشکل اور اس کو ظنی وتخمینی سمجھتے ہیں ،جیساکہ علامہ ابن حجرعسقلانی، ابن بطال،ابن بزیزہ ،نووی ،سندھی، عینی اور قسطلانی وغیرہ محدثین ومحققین کی آراء نقل کرچکے ہیں ،دراصل ان سلف صالحین نے جن اسباب کی وجہ سے فلکیاتی حساب کو غیر معتبر قراردیا تھا وہ سارے اسباب اب دور ہوچکے ہیں۔اب ہم ایسے عصر میں زندگی گزار رہے ہیں جب انسان چاند کو تسخیر کرچکا ہے ، مدار میں سیارے بھیج رہا ہے ، خلاءمیں سیر سپاٹے کیلئے جارہا ہے ،ہزاروں نوری سال کی مسافت پر واقع سیاروں کا پتہ لگا رہا ہے۔معلوم ہونا چاہیے کہ فلکیاتی حساب ظن و تخمین پر مبنی نہیں رہا بلکہ جدید وسائل چاند کے طلوع کا تعین ،منٹ اور سکنڈتک کے حساب سے کررہے ہیں۔جہاں تک یہ کہا جاتا ہے کہ رسول اللہ نے روزہ اور افطار شروع کرنے کیلئے چاند کی بصری رویت پر اعتماد کا حکم دے رکھا ہے تو اس سلسلے میں ہمارا کہنا یہ ہے کہ رسول اللہ اس کی علت بھی بیان کررکھی ہے،علت یہ بتاتی ہے کہ ہم ان پڑھ قوم سے تعلق رکھتے ہیں جو نہ لکھنا جانتی ہے نہ حساب لگانا جانتی ہے لہذا ان کے پاس طلوع ہلال کو جاننے کیلئے بصری رویت کے سوا کوئی اور طریقہ نہ تھا، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر قوم تعلیم یافتہ ہواور حساب کتاب سے واقف ہو تو وہ یقینی علم کا طریقہ اختیار کرکے چاند کے طلو ع ہونے کا پتہ لگا سکتی ہے۔ اگر مسلمان ایسے علم میں دسترس پیدا کرلیں جس کے ذریعے چاند کی شروعات اور انتہاکا علم یقین سے ہوجاتا ہو تو ایسی حالت میں فلکیاتی حساب پر انحصار میں کوئی شرع مانع نہیں ۔یہ بات ناقابل فہم ہے کہ رسول اللہ ہمیں ایسے علم سے روکیں جو کائنات کے نظام ،اللہ تعالیٰ کی قدر ت ، اسکی حکمت اور دقیق نظام کو اجاگر کررہا ہو۔اگر ہم علمائے سلف کے زمانے میں ہوتے تو ہم بھی وہی کہتے جو انہوں نے کہا ہے کیونکہ اس وقت سلف کے زمانے میں فلکیاتی حساب پر اعتماد ممکن نہ تھا اس وقت ایسے آلات ایجاد نہیں ہوئے تھے جو منٹ اور سیکنڈتک بتا کر چاند طلوع ہونے کا تعین کرسکتے۔اگر آج سلف صالحین ہمارے درمیان ہوتے تووہ رویت ہلال کے سلسلے میں فلکیاتی حساب پر انحصارکے قائل ہوجاتے اور اپنی رائے بدل لیتے۔ چاند کی بصری رویت بذاتہ عبادت نہیں بلکہ یہ روزے کا وقت جاننے کا ذریعہ ہے، ماضی میں ننگی آنکھ سے رویت ہی سہل اور مہیا وسیلہ تھے اب صورتحال بدل گئی ہے۔رویت ہلال کے سلسلے میں کسی ایک حدیث نہیں بلکہ تمام احادیث کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ عصرحاضر میں علم الفلک شعبدہ بازی ،ستارہ شناس،کہانت اور ستاروں کے ذریعے قسمت کی خبر دینے والے فن سے یکسر الگ ہے لہذا اس حوالے سے علماءمیں جو تحفظات پائے جاتے ہیں ان کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں ۔
بلکہ ہم پیچھے لکھ چکے ہیں کہ بعض فقہاء ومحدثین نے بعض معاملات میں اس علم پر اعتماد کرنے کو جائز لکھا ہے ،جیساکہ امام نووی نے جہت او رسمت قبلہ کی تعیین اور اوقات صلوٰ ۃ کو مقرر کرنے کے لیے اس علم سے استفادہ کرنے کو جائز لکھا ہے،ہاں البتہ صوم کے حوالہ سے وہ جائز نہیں سمجھتے ،لیکن سوال پیدا ہوتاہے کہ نماز کا حکم ،صوم سے زیادہ سخت ہے ،پھر بھی نووی صلوٰۃ کے وقت کو فلکیاتی حساب سے متعین کرنا درست سمجھ رہے ہیں ،حالانکہ اس پر تمام فقہاء کا اجماع ہے کہ صلوٰۃ کا حکم صوم سے زیادہ احتیاط کا متقاضی ہے، اور اس کا حکم بھی صوم کی بہ نسبت زیادہ وجوب وتاکید کا تقاضہ کرتاہے۔ اور ہم اس سے پہلے ابن بطال کے کلام کو بھی نقل کرچکے ہیں، انہوں نے کہاہے : ہمارے لیے مناسب یہی ہے کہ یہ دیکھیں کہ فلکیاتی حساب وکتاب اگر مشاہدہ وعیان کی طرح حتمی اصولوں پر مبنی ہیں تو پھر ان کے اعتبار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے‘‘۔ان تمام حوالہ جات سے واضح ہوتاہے کہ اسلاف کے زمانہ میں فلکیاتی علم اس نہج وسطح پر نہیں تھا جس طرح وہ آج ہے ،لہٰذا اگر اسلاف کےد ور میں ایسا ہوتا تواس کی رعایت کرنے میں وہ کسی بھی طرح سے فروگزاشت نہ کرتے اور ضرور اس سے استفادہ کو درست سمجھتے ۔
تیسری بات: متقدمین فقہاء کو اپنے عہد میں ایک سنگین مسئلہ درپیش تھا، وہ یہ کہ اس زمانہ میں کاہنوں ،نجومیو ں اور فلکیاتی علم کے ماہرین کو جدا جدا نہیں سمجھا جاتاتھا،بلکہ یہ سب مخلوط معجون تھا، کاہن،ساحر ،جادوگر،ستارہ شناس،اور فلکیات کے عالم سب پر ایک ہی علم نجوم کا اطلاق ہوتاتھا اور فلکیات کا علم اس زمانہ میں ان باقی علوم سے الگ نہیں تھا،اور یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے اس زمانہ میں نجومی ،شعبدہ بازی میں ماہر تھے اور بہت سارے ایسے امور میں مبتلاء تھے جس سے شریعت نے منع کیاہے،ہمارے خیال میں اس زمانہ میں اگر فلکیاتی حساب پر اعتماد کیا جاتاتوا س سے دو فسادات لازم آتے اور اس سے دو منفی نتائج بھی برآمد ہوتے :
پہلی وجہ:پہلا منفی نتیجہ یہ نکلتاکہ ایک ظنی اور تخمینی علم پر ایک قطعی اور مشاہداتی چیز کو ترجیح دی جاتی ،کیونکہ روئیت بصری ایک مشاہداتی چیز ہے ،جبکہ فلکیاتی حساب پر اعتماد کرنے کا مطلب ہے کہ ایک ظنی چیز پر اعتماد کرنا ،انہیں عوارض کی وجہ سے متقدمین فقہاء نے ایک قطعی مشاہداتی چیز پر ظنی و تخمینی چیز کو ترجیح دینا مناسب نہیں سمجھا ،اس لیے کہ اس سے شبہات و اشکالات پیدا ہوسکتے تھے۔
دوسری وجہ:دوسراسبب اور میرے خیال میں یہ سب سے زیادہ خطرناک ہے ،وہ یہ تھا کہ لوگوں کارجحان ان نجومیوں، کاہنوں، جادوگروں اور فال نکالنے والوں کی طرف زیادہ تھا،یہ لوگ اپنی جھوٹی،لغو ،عبث ارو دور از فہم باتوں سے لوگوں کے ذہنوں کو اکساتے اور ان کے جذبات کے ساتھ کھلوار کرتے ،اسی وجہ سے متقدمین فقہاء نے اس علم سے دور رہنے اور اس سے تعامل کو حرام قراردیاہے ۔
میرے خیال میں یہ دوسرا بگاڑ سب سے بنیادی وجہ تھی ،جس نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ جیسے مفکر کو بھی سخت رویہ اختیار کرنے پر ابھارا، اور وہ مجبور ہوگئے کہ روئیت بصری کو فلکیاتی حساب وکتاب پر ترجیح دیں اور انہوں نے اس فلکیاتی حساب وکتاب پر اعتماد کرنے والوں کو مومنین کے راستے کے علاوہ راستے کی پیروی کرنے والا گردانا ہے، اور یہ بھی دلیل ہے کہ فقہاء نے صراحت کی ہے کہ فلکیاتی حساب وکتاب کے ماہرین اور نجومی،کاہن اور جادو گر اپنے زائچے اور قسمت کے ستاروں کی متفرق حرکتوں کوجاننے کے لیے فلیاتی حساب وکتاب کا سہارا لیتے ہیں اور اسی وجہ سے ہی ان کو نجومی اور ستارہ والے کہاجاتاہے،اور اس بات کی شاہد حدیث نبوی ﷺ بھی ہے ،جس کا ذکر ہم نے کچھ دیر پہلے کیاہے اور وہ حضور ﷺ کا یہ فرمان مبارک ہے:’’جس نے ستاروں سے کچھ حصہ لیا اور تحقیق اس نے جادو کا حصہ لے لیاہے‘‘،اسی طرح یہ بات بھی کوئی ناقابل فہم نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کسی ایسے علم سے منع کریں جو کائنات کی ترتیب ،اللہ تعالیٰ کی قدرت ،اس کی حکمت، اور اس کی ذات ایسے علم کو محیط ہے جو کائنات کی تنظیم وترتیب کو اس کے درست طریقے پر قائم کرتی ہے ،اب صاف ظاہر ہے کوئی ایسا علم نہیں ہونا چاہیے جو اس کی ترتیب وتنظیم میں خلل پیدا کررہاہو،جو اس کی حکمتوں کو فاسدقرار دے رہاہو،اللہ تعالیٰ نے قرآن عظیم میں ارشاد فرمایا:
قُلِ انْظُرُوْا مَا ذَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-وَ مَا تُغْنِی الْاٰیٰتُ وَ النُّذُرُ عَنْ قَوْمٍ لَّا یُؤْمِنُوْنَ۔[سورۃ یونس:۱۰۱]
تم فرماؤ: تم دیکھو کہ آسمانوں اور زمین میں کیا کیا (نشانیاں ) ہیں اور نشانیاں اور رسول ان لوگوں کو کوئی فائدہ نہیں دیتے جو ایمان نہیں لاتے۔
مذکورہ حدیث نبوی اس بات کا تقاضہ کرتی ہے رسول اکر م ﷺ کا یہ منصب تھا کہ آپ ساحروں،نجومیوں اور جادگروں کی پھلائی ہوئی گمراہیوں کا قلع قمع کرتے اور امور باطلہ کی نشاندہی کرتے اور مخلوط معاملات کو واضح کرتے ،اسی وجہ سے رسالت مآب ﷺ نے فرمایاکہ نجومیوں سے حصہ لینے والا بھی جادوگر وں سے حصہ لے رہاہے ،کیونکہ اس زمانہ میں فلکیاتی علم قطعیت اور ثقیت تک نہیں پہنچا تھا، اسی وجہ سے کسی بھی طور پر حتمی شرعی مسائل واحکام میں اس پر اعتماد نہیں کیاجاسکتاتھا۔
چوتھی بات : چوتھی بات یہ ہے کہ اب ہم ایسے زمانہ میں زندگی گزار رہے ہیں جب انسان چاند کو تسخیر کرچکا ہے ، مدار میں سیارے بھیج رہا ہے ، خلاءمیں سیر سپاٹے کے لیے جارہا ہے ،،خلاؤں پر اپنی کمندیں ڈال رہاہے ،ہزاروں نوری سال کی مسافت پر واقع سیاروں کا پتہ لگا رہا ہے،نئی نئی دنیائیں وجود میں آرہی ہیں ،دوسرے سیاروں پر حیا ت کو ممکن بنایاجارہاہے،معلوم ہونا چاہیے کہ اب فلکیاتی حساب ظن و تخمین پر مبنی نہیں رہا بلکہ جدید وسائل کی وجہ سے چاند کے طلوع کا تعین ،منٹ اور سکنڈتک کے حساب سے کیا جارہاہے، عصرحاضر میں علم الفلک شعبدہ بازی ،ستارہ شناس،کہانت اور ستاروں کے ذریعے قسمت کی خبر دینے والے فن سے یکسر الگ ہوگیاہے، لہذا اس حوالے سے علماءمیں جو تحفظات پائے جاتے ہیں ان کی کوئی اب ٹھوس وجہ نہیں رہی،اور جن علل واسباب کی بنیاد پر فلکیاتی حساب وکتاب سے روکا جاتاتھا وہ سب اب مفقود ہوچکے ہیں ،اور ویسے بھی ظنی علم کو اگر دوسرے شواہد میسر آجائیں تو وہ پھر ظنی بھی قطعی ہوجاتاہے ،اب فلکیاتی علم ظن وتخمین سے نکل کر قطعیت کے دائرہ میں داخل ہوچکاہے،تو کیا اب بھی اس علم کی صحت و تیقن پر شک کیاجاسکتاہے؟، اور فلکیاتی حساب وکتاب کو اب بھی زمانہ ماضی پر قیاس کیاجائے گا،کیاحقائق کا اعتبار نہیں ہوگا ،زمانہ تغیر کا لحاظ نہیں ہوگا، کیا اس زمانہ میں اس علم کی جدید تحقیقات کو سامنے نہیں رکھا جائے گا،یا پھر اسلاف کی انہیں باتوں کو دہراتے رہیں گے، حالانکہ اسلاف ہمارے زمانے میں ہوتے تو ضرور اس علم میں جدید ہونے والی تحقیقا ت کی تفتیش کرتے اور اس کی روشنی میں فیصلے کرتے ، اگر آج سلف صالحین ہمارے درمیان ہوتے تووہ رویت ہلال کے سلسلے میں فلکیاتی حساب پر انحصارکے قائل نہیں ہوجاتے اور کیا وہ اپنی رائے بدل نہ لیتے؟۔
امام قرافی اور بن حجر عسقلانی کی آراء کا مناقشاتی و تقابلاتی جائزہ
مذکورہ بالا بیان کے بعد ہمارے لیے اب ضروری ہوچکاہے کہ ہم متقدمین علماء میں سے دو عظیم ائمہ کی آراء کا تقابلاتی اور مکالماتی جائزہ پیش کریں ،تاکہ بحث مزید کھل کر واضح ہوسکے ،اور یہ دو ائمہ ،علامہ امام الفقیہ القرافی علیہ الرحمۃ،اور علامہ محدث حافظ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ ہیں۔
الف:امام قرافی کی آراء کا جائزہ:
۱۔امام قرافی کی تحقیقات سے واضح ہوتاہے کہ نئے چاند کی تعیین کے لیے فلکیاتی حساب کا لحاظ نہیں کیا جاسکتا،کیونکہ اس پر بہت زیادہ اشکالات وارد ہوتے ہیں ،جبکہ نماز پنچ گانہ کے اوقات کی تعیین میں کوئی حرج نہیں ہے ،حالانکہ امت کا اجماع ہے کہ صوم کی بہ نسبت صلوٰ کا معاملہ زیادہ احتیاط کا متقاضی ہے،جبکہ یہی ائمہ شمسی حساب اور دیگر جدید آلات کے ذریعے سے نماز پنچ گانہ کے اوقات کی تعیین کو نہ صرف درست سمجھتے ہیں ،بلکہ اسی کے مطابق مسجدوں میں نماز ادا بھی کی جاتی ہے،اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جدید آلات یعنی خود کار گھڑیاں ،موبائل ڈیویسز میں لگی گھڑیاں ،ان کے علاوہ وہ تمام ذرائع جن کی وجہ سے اوقات کی لمحہ بہ لمحہ تعیین ہوتی ہے ،وہ سب فلکیاتی حساب کے تحت ہی ہورہے ہیں ،جبکہ دیگر معاملات میں فلکیاتی حساب کو قابل قبول سمجھا جارہاہے تو صوم وافطار کے معاملے میں کیا حرج ہے ،جس کی وجہ سے اس کو ناجائز قرار دیاجارہاہے ،کیا صوم وافطار کی تعیین کے لیے نئے چاند کی آمد کو فلکیاتی حساب کے تحت نہیں لایا جاسکتا؟ ۔
۲۔چنانچہ امام القرافی نے اپنی کتاب (الفروق) کے ایک سو دوفرق [فرق نمبر :۱۰۲]میں اس مسئلہ پر خاصی تفصیل سے بحث کی ہے،انہوں نے اس مسئلہ کی اس خاص جہت پر بھی کلام کیاہے کہ صلوٰۃ پنج گانہ میں کیوں اعتبار کیاجاتاہے اور صوم وافطار میں کیوں اعتبار نہیں کرسکتے؟،اب ذیل میں ان کے موقف کا خلاصہ ذکر کرتے ہیں ۔
۳۔امام قرافی کے موقف کا خلاصہ یہ ہے کہ صلوٰۃ پنج گانہ کے وجوب کا سبب ،ان کے مقررہ اوقات کا داخل ہونا ہے،ان اوقات کی طرف قرآن عظیم نے اپنے مخصوص انداز میں اشارہ کیاہے، اور سنت نبوی علیہ السلام میں بھی ان اوقات کی طرف واضح اشارات موجود ہیں ،اس کا مطلب ہے کہ قرآن وسنت نے صلوٰۃ پنج گانہ کے اوقات کی تعیین کی طرف اشارہ کیاہے، اس سے واضح ہوتاہے کہ صلوٰۃ پنچ گانہ کے ان اوقات کوبہتر طریقے سے جو علم اورفن بھی عیان کررہاہوگا،اس کے اعتبار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ،کیونکہ نماز کا وجوب تب ہی ہوگا جب سبب موجود ہوگا، اور وہ سبب ہے وقت کا داخل ہونا،یہ پہلے سے موجود ہے،مگر اس کی تعیین فلکیاتی حساب سے یا پھر کسی اور سبب سےکرنے میں محض معاونت ملے گی، تو ایسی صورت میں یہ معتبر بھی ہے اور قابل اعتماد بھی ہے تاکہ مقررہ وقت کا اثبات ہوسکے۔
۴۔جہاں تک معاملہ ہے صوم وافطار کا تو اس کو نبی کریم ﷺ نے چاند کی روئیت کے منسلک کیاہے ،چناچہ رسالت مآب ﷺ کا یہ قول اسی بات کی طرف اشارہ کرتاہے:
صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ فَإِنْ غمّ عَلَيْكُمْ فَاتموا الْعدۃ ثلاثین۔[بخاری،مسلم]
[أخرجه البخاري، كتاب الصوم، باب قول النبي ﷺ(إذا رأيتم الهلال فصوموا، وإذا رأيتموه فأفطروا))، برقم (1909).۔أخرجه مسلم، كتاب الصيام، اب وجوب صوم رمضان لرؤية الهلال، والفطر لرؤية الهلال، وأنه إذا غم في أوله أو آخره أكملت عدة الشهر ثلاثين يوما، برقم (1081).]
اور جب تم چاند دیکھو تو روزہ رکھو !اور جب تم چاند دیکھو تو افطار کرو!، اور اگر تم پر ابر آلود ہو تو تیس دن کی گنتی پوری کرو۔
۵۔یعنی جس طرح نماز کا سبب شرعی وقت کا دخول ہے ،اسی طرح صوم و افطار کا سبب شرعی روئیت ہلال ہے،ناکہ رمضان المبارک کے مہینے کا داخل ہونا اور اس کا آکر مل جانا ، لہٰذا اس سے واضح ہوتاہے کہ بصری روئیت ہلال کے بغیر کسی بھی اور ذریعہ جس میں فلکیاتی حساب وکتاب بھی شامل ہے روزہ کے وجوب کا سبب نہیں ہوگا،بلکہ صوم وافطار کا سبب شرعی روئیت ہلال ہے،یہی وجہ ہے کہ اگر کسی نے چاند دیکھنے سے پہلے روزہ رکھا اس کا ماہ رمضان المبارکا روزہ شمار نہیں ہوگا،کیونکہ عبادت کے سبب سے پہلے ہی اس نے عبادت ادا کرلی ہے ،اوروہ سبب ہے بصری روئیت ہلال ،یہ ایسے ہی ہوگا جیسے کوئی شخص صبح طوع آفتاب کے بعدظہر کی نماز ادا کرلے ،حالانکہ ابھی اس کا سبب شرعی داخل نہیں ہوا،اسی طرح صوم وافطار کا سبب شرعی روئیت ہلال ہے ،جب تک یہ روئیت ہلال نہ ہوگی،تب تک رمضان المبارک کابھی روزہ درست نہیں ہوگا۔
امام قرافی کے موقف پر میرا تبصرہ:
۱۔ اس سارے موقف کے بارے میں ،میں کہتاہوں:
امام مالک علیہ الرحمۃ کی شان وشوکت اور ان کی علمی قدرومنزلت کے باوجود ،جب انہوں نے اپنی عظیم الشان ،رفیع المقام کتاب کی تکمیل کرچکے اور لوگوں تک پہنچا چکے تو اس وقت فرمایا:’’ہم میں سے کوئی بھی شخص جب اس کلام کے دفاع میں کچھ بھی جواب دیتاہے تو اس کا مطلب ہے ،اس صاحب قبر کا جواب ہوتاہے‘‘ ،اس سے مراد رسول اکرم ﷺ کی قبر کی طرف اشارہ کرنا مقصود تھا،اور بتانا یہ مطلوب تھا کہ ہماری تمام تر علمی جدوجہد رسول اکرم ﷺ کے دین کادفاع ہی ہوتاہے ۔اسی وجہ سے اگر ہم یہاں امام قرافی علیہ الرحمۃ کی آراء کا جائزہ لے رہیں یا پھر امام قرافی کی فقہی قدرو منزلت کے باوجود ان سے اختلاف کررہے ہیں ،اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ ہم ان سے کوئی انفرادی اختلاف کرتے ہیں ،بلکہ ہم محض اس دین کے دفاع میں ہی سب کچھ کررہے ہیں اور ہم یہاں جو انہوں نے فرق بیان کیاہے ،اس کا مناقشہ کرتے ہیں تاکہ حق واضح ہوسکے۔
۲۔یہاں سب سے پہلے ایک بنیادی تمہید کا سمجھنا ضروری ہے ،جس کا تعلق اصول فقہ کی ابتدائی بحث کے ساتھ ہے،اس تمہید میں سبب اور اس کی انواع واقسام کا ذکر ہے،اگر ہم سبب کی بات کریں تو سبب اپنا بنیادی اور عمومی یہ مفہوم رکھتاہے:
سبب ہر وہ امر ،معاملہ یا واقعہ ہے جو غیر کے ساتھ وجودی وعدمی طور پر اس طرح مربوط ہوکہ اگر پہلا موجود ہوتو دوسرا بھی موجود ہوگا،اور اگر پہلا معدوم ہوجائے تو دوسرا بھی معدوم ہوجائے گا،پس اس میں سے پہلے کو سبب اور دوسرا جو اس پہلے پر مرتب ہورہاہے تو اس کو مسبب کہتے ہیں ۔
۳۔اسی طرح سبب کی بنیادی طور پر تین اقسام ہیں :طبعی،شرعی اور جعلی۔ پس طبعی سبب وہ ہے جس پر قوانین طبعیہ کا حکم مرتب ہوتاہے، مثلا آگ کو چھونا جلانے کا سبب ہے،یعنی جیسے ہی کوئی شخص آگ کو چھوئے گا تو ضرور جلن ہوگی ،اور زمین کی کشش اجسام کے نیچے گرنے کا سبب ہے،اسی طرح اور بہت ساری مثالیں طبعی دنیا میں موجود ہیں۔
۴۔سبب شرعی سے مراد وہ سبب ہے جس کو شارع علیہ السلام نے سبب قراردیاہے اور اس پر شرعی حکم مرتب ہوتاہے اورمکلفین پر یہ حکم اس سبب کی موجود گی میں لازم ہوجاتاہے،سبب شرعی کی سب سے واضح مثال نمازپنچ گانہ کے اوقات ہیں،کیونکہ یہی اوقات ہی ان کے اسباب ہیں ،اگر شارع نے حکم نہ دیاہوتا تو یہ اوقات اسباب بھی نہ بنتے ،لہٰذا شارع کے حکم کی وجہ سے ان اوقات کو سبب کی حیثیت دی گئی ہے۔
۵۔سبب جعلی وہ ہے کسی چیز کو انسان اپنے ارادہ واختیار سے سبب بناتاہے ،مثلا کسی نے نذر مانی کہ جب اللہ تعالیٰ مجھے فلاں بیماری سے شفاء کاملہ دیں گے تو میں غرباء کے لیے کوئی جانور ذبح کروں گا،محض بیماری سے شفایابی ذبیحہ کاسبب نہیں ہے ،بلکہ انسان نے اپنے ارادہ واختیار سے خود ہی اپنے اوپر اس چیز کو سبب بنایا ہے ،اپنے ارادہ سے ہی بیماری سے شفاء یابی کے بعد ذبیحہ کو خود پر لازم کیاہے،مگر یہ تب ہی لازم ہوگا جب اس کا سبب موجود ہوگا،اور وہ سبب ہے بیماری سے شفاء یاب ہونا۔
۶۔ سبب اور اس کی اقسام کی مختصر مگر جامع تمہید کے بعد ہم کہتے ہیں :یقینا علامہ امام قرافی علیہ الرحمۃ نے اپنی تحقیق میں نمازوں اور روزوں کے سبب شرعی کے درمیان فرق کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے اور انہوں نے بتایاہے کہ جس طرح اوقات نماز کے دخول سبب ہے ،اسی طرح روئیت دخول رمضان المبارکا سبب ہے،اس عبارت میں القرافی کا دعوی ہے کہ صوم کے وجوب کا شرعی سبب روئیت ہلال ہے،ناکہ ماہ رمضان المبارک کا داخل ہونا،جس طرح نمازوں کے اوقات کا داخل ہونا نماز کا سبب ہے ،جبکہ رمضان کا دخول رمضان کاسبب نہیں ہے بلکہ روئیت ہلال رمضان کاسبب شرعی ہے،ام قرافی علیہ الرحمۃ نے جو دعوی کیاہے ،وہ دعوی کسی بھی طرح سے تسلیم نہیں کیاجاسکتا،حالانکہ درست بات یہ ہےکہ صلوٰۃ پنج گانہ اور صوم کے اسباب میں کوئی خاص فرق نہیں ہے ،بلکہ دونوں کا سبب شرعی محض وقت کا داخل ہوناہے،یعنی جس طرح پانچ نمازوں کےاوقات کا داخل ہونا ،ان نمازوں کے وجوب کا سبب شرعی ہے،اسی طرح رمضان المبارک کے مہینے کا دخول وحلول ہی رمضان کے روزوں کے وجوب کا سبب شرعی ہے،جبکہ قرافی نے روئیت ہلال کو ہی سبب شرعی قراردیاہے ،حالانکہ روئیت ہلال صوم وافطار کے لیے سبب شرعی نہیں ہے،وگرنہ جب بادلوں اور دھند یا پھر کسی اور عارضہ کی وجہ سے روئیت ہلال منتفی ہوجائے یا پھر مکمل طریقے سےروئیت ممکن نہ رہے تو ایسی صورت میں مسلمانوں کو شعبان المارک کے تیس دنوں کو مکمل کرنا ضروری ہے، کیونکہ ایسی صورت میں صوم کا سبب شرعی نہیں پایاگیاہے اور وہ ہے روئیت ہلال ، تو پھر جب تک سبب موجود نہیں ہے تو مسبب کیسے متحقق ہوگا ؟اور سبب سے پہلے مسبب نہیں پایاجاسکتا ،اس سے واضح ہوتاہے کہ صوم کا سبب شرعی رو ئیت ہلال نہیں ہے ۔
۷۔ پس رسالت مآب ﷺ کا یہ قول: ”اگر تم پر ابر آلود ہو تو تیس کی گنتی پوری کر لو‘‘ ،امام قرافی کے اس کو توڑ دیتاہے اور ان کے موقف کی نفی ہوجاتی ہے کہ صوم کے وجوب کا سبب روئیت ہلال ہے،کیونکہ تیس کی گنتی مکمل کرنے پر صوم رمضان واجب قراردیاجارہاہے، تو ایسی صورت میں روئیت ہلال تو رہا نہیں ،اس لیے کہ اگر یوں چاند بادلوں اوردھند کے اوٹ میں مخفی رہے تو عدم روئیت کی وجہ سے کیا صوم رمضان کا وجوب متحقق نہیں ہوگا،بلکہ یقینی بات یہ ہے کہ تیس کی گنتی مکمل کرنے کے بعد اب رمضان المبارک کا نیا ماہ شروع ہوچکاہے ،اس لیے کہ قمری مہینے تیس دنوں سے زیادہ کے نہیں ہوتے ،جب تیس دن سے اوپر قمری مہینے نہیں جاسکتے،اس سے واضح ہوتاہے کہ صوم رمضان کے وجوب کا سبب دخول وقت صوم ہے ،ناکہ روئیت ہلال،تیس کی گنتی کو مکمل کرتے ہی رمضان المبارک شروع ہوجاتاہے ،اگرچہ روئیت ہلال ہوئی ہو یا نہ ہوئی ،اب عیاں ہوگیاکہ روئیت ،صوم رمضان کا سبب شرعی نہیں ہے بلکہ رمضان المبارک کے مہینے کا دخول وحلو ل ہی رمضان المبارک کے روزوں کے وجوب کا سبب ہے ،صوم رمضان اور صلوٰۃ پنچ گانہ کے اسباب میں فرق اس طرح ہے ،ویسے نہیں ہےجیسے امام قرافی نے بیان کیاہے،کیونکہ اس توجیہ سے بہت سارے اشکالات واعتراضات وارد ہوتے ہیں جس کی وضاحت گزرچکی ہے۔
۸۔ہمارے موقف پر مزید یہ آیت بھی دلالت کررہی ہے ،چناچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُ۔[سورۃ البقرۃ:۱۸۵]
پس تم میں سے جو کوئی یہ مہینہ پائے تو ضرور اس کے روزے رکھے۔
یہاں اس آیت میں شہود شہر سے مراد اس مہینے میں ،وہاں موجودگی ہے،اس مہینے کا مشاہدہ نہیں ہے، یعنی اس مہینے میں انسان مسافر نہ ہو بلکہ گھر یا کسی ایسی جگہ موجود ہو،جس میں عدم روزے کا کوئی سبب موجود نہ ہو،یہ آیت اس بات پر صریح لیل ہے کہ یہاں صوم رمضان کا سبب شرعی ،رمضان المبارک کا دخول وحلول ہے،یہ نہیں ہے کہ محض روئیت ہلال ہوگئی تو اس پر روزہ فرض ہوگیا ۔
۹۔اس ساری تحقیق سے یہ مقدمہ پختہ ہوگیاہے کہ روئیت رمضان المبارک کے مہینے کی آمد کی محض علامت اور وسیلہ ہے،جو صرف یہ بتانے کے لیے آتاہے کہ اب رمضان المبارک کا مہینہ داخل ہوچکاہے،جیسے صلوٰۃ پنچ گانہ کے اوقات یہ بتانے کے لیے آتے ہیں کہ اب فلاں نما ز کاوقت داخل ہوچکاہے،اسی طرح روئیت بھی محض ذریعہ ہے ،رمضان المبارک کے روزے کا سبب شرعی نہیں ہے۔
۱۰۔اس سے یہ بھی واضح ہوتاہے کہ فلکیاتی حساب وکتاب کے قدیم وجدید ذرائع ووسائل،یا ان کے علاوہ کوئی بھی ذریعہ جو حتمی طور پر آمد ماہ اور اختتام کو متعین کردے اور ان میں کوئی شک ،تردد،عیب اور ظن وتخمین بھی نہ ہوبلکہ اس کی وجہ سے قطعیت اور یقین حاصل ہورہاہوتو ایسی صورت میں تمام احکام میں اس کا نا صرف اعتبار ہوگا،بلکہ مذکورہ تصریحات کی روشنی میں قابل اعتماد بھی ہوگا، اس لیے جدید فلکیاتی حساب وکتاب کی رعایت صوم وافطار کے ساتھ حج اور دیگر احکام ومعاملات میں کرنے میں کوئی فرق و تمییز نہیں ہے ،بلکہ تمام احکام میں برابر اعتبار کیاجائے گا،جس طرح وقت کا دخول تمام نمازوں کے لیے سبب شرعی ہے ،اسی طرح رمضان المبارک کا دخول بھی اس کا سبب شرعی ہے ،روئیت ہلال سبب شرعی نہیں ہے۔
ب۔ علامہ حافظ محدث ابن حجر عسقلانی کا موقف:
۱۱۔اور جہاں تک معاملہ ہے حافظ ابن حجر عسقلانی[ علیہ الرحمۃ واجزل ثوابہ ] کو تو انہوں نے اپنی عظیم کتاب فتح الباری شرح صحیح البخاری میں رسول اللہ ﷺکے الفاظ ان الفاظ :’’ ہم ایک ناخواندہ قوم ہیں ، جو نہ لکھتے ہیں اور نہ ہی فلکیاتی حساب کرتے ہیں‘‘کی تشریح کے بعد ،حاصل کلام پر گفتگو کرتے ہوئے ارشادفرماتے ہیں : یہاں حدیث میں حساب سے مراد ستاروں کا حساب وکتاب ہے ، اور علم النجوم ہے ،جس کے طریقے کو استعمال کرکے ستاروں کی حرکتوں اور رفتار کو جانا جاتاہے، اور صوم وغیرہ میں حکم کو روئیت ہلال کے ساتھ اس لیے معلق کیاہے تاکہ حرج کو دور کیاجاسکے،کیونکہ فلکیاتی حساب کے مقابلے میں روئیت ہلال نہایت آسان ہے اور شریعت آسانی فراہم کرتی ہے، اس مقدمہ کے بعد ابن حجر بطور منطقی تالی کے اس قول کا اضافہ کیاہے: صوم وافطار کا روئیت ہلال کے ساتھ حکم کا معلق ہونا ،یہ ایک استمراری حکم ہے،اگر چہ بعد کے زمانہ میں علم النجوم کی معرفت قطعیت کے درجے پر پہنچ جائے مگر پھر بھی روئیت ہلال سے صوم وافطار کا حکم معلق رہے گا،بلکہ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ کلام رسول ﷺ میں اس بات کی اصلا نفی موجود ہے کہ صوم وافطار کے حکم کو فلکیاتی حساب کے ساتھ معلق کیاجائے ،بلکہ کسی بھی زمانہ میں ایسا نہیں ہوسکتا،ہر عہد میں صوم وافطار روئیت ہلال کے ساتھ معلق رہیں گے۔
۱۲۔ ہم کہتےہیں کہ اس مسئلہ میں بالفرض ہم ابن حجر علیہ الرحمہ کے موقف کے ساتھ ہوجائیں کہ صوم وافطار کے معاملے کو فلکیاتی حساب وکتاب کے ساتھ معلق کرنے کی نفی ابدی ہے ،مگر شریعت کے مقاصد اور شرعی نصوص ا س کے برخلاف ہیں ،جیساکہ ابن حجر علیہ الرحمہ کے پہلے بیان بھی کچھ گزرچکے ہیں،ابن حجر کی یہ تصریح اور اس سے پہلے والے بیانات سے یہ لازم آتاہے کہ شرعی احکام کو ایسے اسباب سے معلق نہیں کیاجاسکتاہے جو زمانی و مکانی تغیر کے ساتھ بدلتے رہتےہیں ،اور دوسرےلفظوں میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ شریعت ایسے اسباب پر توقف نہیں کرتی جو زمانی ومکانی تبدیلیوں کےساتھ بدلتے رہتے ہیں ،یعنی ایک زمانہ میں ان کا کوئی کچھ حکم ہوتاہے اور پھر ایک زمانہ آتاہے ،ان کی نوعیت وکیفیت کے بدلنے کی وجہ سے حکم بھی تبدیلی کا تقاضہ کرتاہے،کیونکہ شریعت نے جس وجہ سے اس حکم کو معلق کیاتھا،وہ حکم اب مفقود ہوچکاہے،حالانکہ شرعی مقاصدات کے گہرے مطالعہ سے واضح ہوتاہے کہ احکام تکلیفیہ میں شریعت نے ان اسباب کی رعائیت کی ہے جن کی معرفت حواس طبعیہ کے ساتھ زمانی ومکانی تغیرات کے تناظر میں انسان کو عارض ہوتے رہتے ہیں،اب یہ کونسی انصاف پسندی ہے کہ اگر کوئی علم یقین کی حدتک پہنچ جائے ،اور اس میں ظن وتخمین نہ رہے ،مثلا فلکیاتی حساب وکتاب کے ساتھ صوم وافطار کو کسی بھی طرح معلق نہیں کیاجاسکتا،اگرچہ فلکیاتی حساب وکتاب اس وقت یقین کے درجے کو حاصل کرچکے ہیں، حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ صوم وافطار کے لیے روئیت محض ایک ذریعہ اور وسیلہ کی حیثیت اختیار کرتی ،مگر انہوں نے حکم کو ہمیشہ کے لیے اس کے ساتھ معلق کردیاجو کسی بھی طرح سے درست نہیں ہے ،کیونکہ ایک تو اس زمانہ میں فلکیاتی حساب وکتاب علم الیقین ،عین الیقین کےدرجے میں سے ہے ،اوردسرا شریعت نے روئیت کو محض ذریعہ ووسیلہ کی حیثیت دی ہے، کیونکہ اگر روئیت بصری طبعی عوارض کی وجہ سے مفقود ہوجائے ،مثلا بادلوں،دھند یا اور کسی بھی وجہ سے تو ایسی صورت میں روئیت ہلال تو متحقق نہیں ہورہی ہے ،کیونکہ ہلال موجود ہونے کے باوجود فضاؤں کی اوٹ میں مخفی ہے اور زمین پر رہنے والوں کے لیے روئیت بصری اس وقت مشکل ہوچکی ہے ،اگرہلال کی موجودگی دینے والا ایک ذریعہ ووسیلہ کسی عارضہ کی وجہ سے زمانی ومکانی طور پر مفقود ہے تو اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہےکسی اور ذریعہ ووسیلہ سے ہلال کی موجودگی کا علم حاصل نہیں ہوسکتا،بلکہ عہد جدید میں فلکیاتی حساب وکتاب ہمیں قطعی ویقینی اور حتمی علم فراہم کرتاہے ،اور اس کی روشنی میں ہمیں معلومات مل رہی ہیں کہ اب ہلال موجود ہے اور نیا ماہ شروع ہوچکاہے ،اب شریعت کا مقصود جو روئیت ہلال سے حاصل ہونا تھا ،وہ اب فلکیاتی حساب وکتاب سے حاصل ہورہاہے۔
۱۳۔ہماری مذکورہ بحث کے تناظر میں اس موضوع کا محل اختلاف واضح ہوجاتاہے ،میں کہتاہوں محل اختلاف یہ نہیں ہے کہ صوم وافطار کو فلکیاتی حساب وکتاب کے ساتھ ضرور ہی معلق ومربوط کیاجائے ،بلکہ محل اختلاف ہلال کی روئیت بصری ہے، شریعت نے ہمیں چاند کی موجودگی کے علم ہونے کا پابند کیاہے ،ناکہ روئیت بصری کے ساتھ مکلف کیاہے،اگر زمانی ومکانی تبدیلیوں کےساتھ رمضان المبارک کی موجود گی کسی بھی اور ایسے علم سے حاصل ہوجاتی ہے جس میں قطعیت وحتمیت ہوتو اس کا اعتبار کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے ،کیونکہ شریعت کا مقصود روئیت بصری نہیں ہے ،بلکہ صوم وافطار کے وقت کی تعیین ہے ،اور یہ تعیین کسی بھی ایسے ذریعے سے ہوسکتی ہے جو اس کے وجود وعدم کے متعلق کامل وحتمی طریقے سے مل رہی ہو،اب ہمارا سوال یہ ہے کہ اگر کوئی ایسا علم موجود ہو جو ہمیں ہلال کے متعلق یا کسی بھی وقت کی تعیین کے متعلق قطعیت وحتمیت اور یقین کی حدتک علم فراہم کررہاہو تو کیا ہم اس ذریعہ پر اعتماد نہیں کرسکتے ،کیا یہ ذریعہ شرعی مقاصدات کے حاصل کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کرے گا،کیا شریعت ہمیں آسانی ویسر فراہم نہیں کرتی اور شریعت یہ نہیں کہتی کہ ہم مقصود کو حاصل کرنے کے لیے اس آسانی والے ذریعہ کو اختیار کرلیں کیا ہم آسان ترین طریقے سے ہدف تک نہیں پہنچ سکتے؟ اور کسی ایسے ذریعے کو اختیار نہیں کرسکتے جس کی وجہ سے افراتفری ،انتشار وافتراق بھی ختم ہوسکے جس کا آج ہم شکار ہیں ؟۔
خاتمۃ البحث:
۱۔اب بحث کو اختتام کی طرف لے جاتے ہوئے ،اختتامی کلمات کہنے سے قبل یہ ذکر کرنا مناسب سمجھتاہوں : مجھے یاد ہے عالمی تنظیم اسلامی سے وابستہ بین الاقوامی فقہ اکیڈمی نے 8تا 13صفر 1407ھ کے دوران اردنی دارالحکومت عمان میں ، ایک کانفرس منعقد کی تھی اور اس میں فلکیاتی حساب وکتاب کا مسئلہ زیر بحث آیا تھا،اس کانفرنس میں اس موضوع کو مکمل طریقے سے احاطہ کیا گیا تھا اور اس موضوع کے مختلف پہلوؤں پر تفصیلی کلام کیاگیاتھا ،اس کانفرنس کے موقع پر دوفیصلے کیے گئے ۔پہلا فیصلہ یہ کیا : ’’اگر کسی ایک ملک میں روئیت ہلال ثابت ہوجائے تو ایسی صورت میں تمام مسلمانوں کو اس کی پابندی کرنا ہوگی۔ اس سلسلے میں یہ عذر قابل قبول نہیں ہوگا کہ جس ملک میں چاند نظر آیا ہے اس کا مطلع ہمارے ملک کے مطلع سے الگ ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ہمیں چاند دیکھ کر روزہ رکھنے اور چاند دیکھ کر افطار کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے وہ عام ہے لہذا اگر کہیں بھی چاند دیکھ لیا گیا تو ایسی صورت میں دیگر مقامات کے مسلمان اس کے پابند ہوجائیں گے‘‘۔ دوسرا فیصلہ یہ کیا گیا: ’’ چاند نظر آنے کا انحصار بصری روئیت پر ہی ہو ،البتہ رصد گاہوں کے جدید ترین وسائل اور فلکیاتی حساب کتاب سے روئیت کے سلسلے میں مدد لی جائے‘‘۔
۲۔اسی طرح اس کانفرنس میں امریکہ کی متفرق ریاستوں اور مسلمانوں کے متفرق ممالک سے فلکیاتی حساب وکتاب کے ماہرین کو بھی مدعو کیاگیاتھا،یہ ماہرین فلکیاتی علم میں حددرجہ کمال کے ساتھ اپنے مذہب پر بھی سختی عمل پیرا ہونے والے تھے،عمان میں ان ماہرین کی شرکت نے زیر بحث مسئلہ کے اورکئی پہلوؤں کو اجاگر کیاہے، اور اس موضوع پر مفید معلومات فراہم کی تھیں۔ اس کانفرنس میں جدید فلکیاتی نظام کے مختلف حیثیتوں کو بھی واضح کیاگیا ،اور یہ بتایاگیاکہ جدید دنیا میں فلکیاتی اور علم نجوم نے بہت زیادہ ترقی کرلی ہے اور یہ علم اب قطعیت وحتمیت کے اصولوں پر استوار ہوچکاہے،اس کانفرنس میں جو کچھ ذکر کیاگیا،اس کاخلاصہ درج ذیل ہے۔
۳۔ اِس کائناتِ ہست و بود میں اللہ ربّ العزت کی تخلیق کے مظاہر ناقابلِ شمار ہیں۔ اَجرامِ سماوِی اور ان مجموعہ ہائے نجوم کی ریل پیل کائنات کے حسن کو دوبالا کرتے ہوئے اُسے ایک خاص انداز میں متوازن رکھے ہوئے ہے۔ یہی توازن اِس کائنات کا حقیقی حسن ہے، جس کے باعث مادّہ (matter) اور ضدِمادّہ (antimatter) پر مشتمل کروڑوں اربوں کہکشاؤں کے مجموعے (clusters) بغیر کسی حادثہ کے کائنات کے مرکز کے گرد محوِ گردش ہیں۔ ان کلسٹرز میں کہکشاؤں کا ایک عظیم سلسلہ اور ہر کہکشاں میں اربوں ستارے اپنے اپنے نظام پر مشتمل سیاروں کا ایک گروہ لیے کُنْ فَیَکُوْن کی تفسیر کے طور پر خالقِ کائنات کے اوّلیں حکم کی تعمیل میں محوِ سفر ہیں۔اس سفر نے انسان کو خلاباز بنادیاہے،انسانی سفر اب زمین کی حدود سے نکل کر خلاؤں کی وسعتوں میں پھلاتا جارہاہے، زمین وخلا کے گرد چکر لگانے والی گاڑیاں وجود میں آچکی ہیں ، ان گاڑیوں میں مہینوں گزارے جاسکتے ہیں ،سفری سامان ومسافرین دوران سفر ہی تبدیل کرلیے جاتے ہیں ،ایک خلاباز کی جگہ فوراہی کوئی دوسراخلاباز لے لیتاہے،ان خلابازوں کو امریکہ اپنے سٹلائٹس اور میزائلوں سے کنٹرول کررہاہے،یہ خلائی سفر بڑا ہی پراسرار ہوتاہے ،خلائی مسافر ایک دوسرے کی جگہ بدلتے رہتے ہیں ،ان مسافروں کے درمیان ملاقاتیں شروع ہو جاتی ہیں، معلومات کی منتقلی کی جاتی ہے،پھر زمین پر آکر ایک دوسرے مزید روابط قائم کرتے ہیں، معلومات کو لوگوں تک پہنچاتے ہیں ، خلاباز مسلسل خلائی تحقیق اور کھوج میں مصروف رہتے ہیں،یہ جدید تحقیقات ،جدید فلکیاتی نظام کو منظم طریقے سے ظاہر کررہاہے،اور یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ اب جدید فلکیاتی نظام میں قطعیت وحتمیت آچکی ہے،اس نظام سے کسی بھی طرح سے فرار ممکن نہیں ہے ۔
۴۔اس تحقیق کے بعد امریکہ کے ماہرین فلکیات سیشن چھوڑ کر چلے گئے،اور اب یہ معاملہ اکیڈمی میں ووٹنگ کے لیے رکھ دیاگیا، اکثر اراکین نے یہ فیصلہ دیاکہ چاند کے ثبوت کے لیے فلکیاتی حساب وکتاب پر اعتماد نہیں کیاجاسکتا،بلکہ بصری مشاہدہ کو ہی بنیاد بناکر مہینے کو متعین کیاجائے گا،یا پھر مہینے کے تیس دنوں کی تکمیل کا اعتبار کیاجائےگا، اس رائے پر اس کانفرنس میں موجود اکثر لوگوں نے تائید کی ہے اور اب بھی فلکیاتی حساب وکتاب پر اعتماد کرنے کو درست نہیں قرار دیا، مگر چند لوگوں نے ان کے فیصلے کو درست نہیں قرار دیا۔
۵۔اس کانفرنس میں ڈاکٹر شیخ یوسف القرضاوی نے کانفرنس کی صدارت سے پوچھا کیا ہمیں بحث میں صرف حصہ لینے کی دعوت دی گئی ہے ،کیا ہماری رائے کی کوئی حیثیت نہیں ہے ،اور ہمیں ووٹنگ میں شامل کیوں نہیں کیاگیا،اور ہماری رائے کوکیوں درخور اعتنا سمجھا جارہاہے اور اس کانفرنس میں ہمیں بولنے کا کیوں حق نہیں دیا جارہاہے ،جب ہمیں بھی تمام شرکاء کی طرح مدعوین میں سے ہیں تو ہمیں بھی مساوی طور پر ووٹنگ اور بولنے کا حق ملنا چاہیے،اس کے بعد ڈاکٹر صاحب کھڑے ہوئے اور انہوں نے کچھ فرمایا وہ ذیل میں پیش کرتے ہیں تاکہ مسئلہ کا یہ پہلو بھی واضح ہوسکے۔
۶۔ ڈاکٹر شیخ یوسف القرضاوی نے فرمایا: اے نیک فضلاء بھائیو: ہم مبلغین ہیں جو اسلام کی نمائندگی کرتے ہیں اور ہم مختلف ذرائع اور مواقع کی رعائیت کرتے ہوئے تبلیغ کا فرایض سر انجام دیتے ہیں، اور ہم عوام کے سامنے اعلان کرتے ہیں کہ اسلام کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے آخری قوانین ہمیں دے دیے گئے،یہ وہ ابدی قوانین ہیں جنہیں کوئی منسوخ نہیں قرار دے سکتا، ہاں البتہ ان قوانین کی تعبیر وتفہیم زمانی ومکانی حالات کے تغیر سے بدلتے رہیں گے ، ان تغیر ات میں بھی اسباب ،مقاصد،ضروریات اور انسانی مقاصدات کا خیال رکھا جائے گا، اسلام محض زمانہ ماضی کی تاریخ نہیں ہے ،بلکہ یہ ایک زندہ وپائندہ حقیقت ہے ،جس کو کسی بھی طرح سے رد نہیں کیاجاسکتا،اسلام ہر زمانی ومکانی تغیرات کو اپنے اندر سمونے کی ضبط رکھتاہے،اسلام ہر عہد کے مسائل کا حل پیش کرسکتاہے،نئے علوم وفنون کو اسلام نہ تو کلی طور پر رد کرتاہے اور نہ کلی طور پر ان کی موافقت کرتاہے،اور ہماری دعوت کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلام اور دور جدید کے بہت سارے مسائل میں کوئی تضاد نہیں ہے ، اسلام اپنے مضبوط اصولوں، اس کے بدلتے ہوئے ذرائع اور عوامی ضروریات، اور مختلف حالات کے پیش نظر یہ ہر زمانے اور جگہ پر انسانی زندگی کی تمام حقیقی ضروریات کو پورا کرنے کے نا صرف قابل ہے،بلکہ ان کی حمایت بھی کرتاہے ،مجھے حیرت ہورہی ہے کہ امریکی مسلمان ماہرین فلکیات کو آپ لوگوں نے بولایا مگر ان کی رائے اور تحقیقات کو بغیر سوچے سمجھے اور تحقیق کیے یوں ہی رد کردیاہے، مجھے یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ جدید فلکیاتی نظام بہت ساری تبدیلیاں رونما ہوچکی ہیں ،اب یہ نظام قطعیت وحتمیت میں داخل ہوچکاہے ،لہٰذا اب علم کو ٹھکرانے کی کوئی ٹھوس علمی وجہ موجود نہیں ہے ،لہٰذا اس کانفرنس میں ہم آپ کی قراردار پر کیسے اتفاق کرسکتے ہیں ؟ اور ہم فلکیاتی حساب وکتاب پر عدم اعتماد کی رائے پر کیسے ووٹنگ دے سکتے ہیں ،مجھے یہ بتائیں کیا اسلام ہر زمانی ومکانی تغیرات کو ساتھ نہیں دیتا؟،کیا اسلام جدید تحددیات کا مقابلہ نہیں کرسکتا؟،میں یہ کہنا چاہتاہوں کہ انتشار وافتراق کب تک چلتارہے گا ،کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ پچھلے رمضان میں ہی مملکت سعودی عرب اور مملکت مراکش کے روزوں اور افطاری میں تین دن کا فرق تھا!! حالانکہ دونوں مملکتیں فلکیاتی حساب وکتاب کے بغیر گواہوں کی بصری روئیت پر انحصار کرتی تھیں؟!!۔
۷۔اپنی رائے جناب القرضاوی نے فرمائی ،اور اپنی ساری گفتگو سے یہ تیجہ اخذ کیا اور اجلاس کے صدر سے کہاہے کہ قرارداد میں میرا نام لکھ کر یہ فیصلہ صادر کیاجائے کہ مذکورہ فیصلے کے میں مخالف ہوں ،او راگرچہ اس وقت میں اکیلا اس فیصلے کی خلاف ورزی کررہاہوں، لیکن جلد ہی بہت سارے لوگ میری رائے کی موافقت کریں گے اور مجھے کوئی فرق نہیں پڑتاکہ میری رائے اکثریت کی رائے کے خلاف ہے ،اور مجھے اس بارے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ فیصلہ اکثریت کی رائے پر جاری ہورہاہے ۔
۸۔ [ذیل میں ہم شیخ یوسف القرضاوی کی آراء کا خلاصہ ذکرتے ہیں ،تاکہ ان کااستدلال بھی سامنے آسکے۔از:مترجم]ان کے کلام کا خلاصہ جو ہم نے اخذ کیا ہے وہ اس طرح ہے:
الف- شارع کا مقصود کسی بھی ممکن اور میسر ذریعہ سے مہینہ کا تعین ہے۔
ب- رؤیت بصری ( آنکھ سے چاند کا دیکھنا ) نبی کریم ﷺ اور صحابہ کے عہد میں واحد ذریعہ تھا ،فلکی حساب اس وقت میسر نہیں تھا جیسا کہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: ’’أنا أمة أمية لا نكتب ولا نحسب“ ہم ایک امی امت ہیں ہم نہ لکھتے ہیں اورنہ حساب کرتے ہیں،لہٰذ اعرب حساب سے ناواقف تھے اور ان کے لیے اہل حساب سے استفادہ ممکن نہیں تھا۔
ج- فقہاء نے فلکی حساب والوں کا اعتبار نہیں کیا، ان کا خیال تھا کہ ایسا کرنے سے علم غیب کا دعوی کرنے والوں یعنی نجومیوں کو تقویت ملے گی ، اس لیے کہ اکثر فلکی حساب داں نجومی تھے۔
د۔ اس زمانے میں روئیت بصری کے مقابلہ میں زیادہ مضبوط اور قابل اعتماد ذریعہ چاند کے سلسلہ میں فلکی حساب کا ہے، لہذا منشاء شارع یعنی کسی بھی ممکن اور میسر ذریعہ سے مہینہ کا تعین ہو، اس کی بناء پر ہم کو چاہیے کہ فلکی حساب کو اس سلسلہ میں اختیار کریں اور قدیم ذریعہ ، یعنی رؤیت بصری پر جمود نہ رکھیں ، کیونکہ وہ مقصود نہیں ہے۔
ھ ۔ عالم اسلام کا اتحاد و اجتماع رمضان کے شروع اور ختم کرنے میں اور عیدین کے ایک دن منانے میں جو شرعا مطلوب ہے فلکی حساب کے ذریعے ہی ممکن ہے، نہ کہ رؤیت کے ذریعے سے۔
وصلی اللہ تعالیٰ علیٰ سیدنا رسول اللہ ﷺ الھدی ومعلم الخیر ،علی آلہ وصحبہ وسلم۔
Add new comment