مطلع عربی زبان میں اس مقام کو کہتے ہیں جہاں سے کوئی چیز طلوع ہوتی ہے، مطلع ہلال سے مراد افق کا وہ مقام ہے جہاں پر ہلال طلوع ہوتا ہے۔ آج کل عام طور پر یہ مشہور ہے کہ ہر ملک کا اپنا مطلع ِہلال ہے۔بیلجئیم میں ہلال نظر آئے تو وہ بیلجیم کے لوگوں کے لیے ہیں، اسی طرح ہندوستان کے لوگوں کے لئے ہندوستان میں نظر آنے والا ہلال ہے، پاکستان کے لوگوں کے لئے پاکستان میں نظر آنے والا ہلال ہے۔برطانیہ میں نظر آنے والا ہلال برطانیہ کے لوگوں کے لیے ہے۔اگرچہ یہ بہت معقول بات ہے لیکن اسلامی فلسفہ امت و خلافت سے متصادم ہے۔قرآن مجید سورت یونس میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
ھُوَ الَّذِیۡ جَعَلَ الشَّمۡسَ ضِیَآءً وَّ الۡقَمَرَ نُوۡرًا وَّ قَدَّرَہٗ مَنَازِلَ لِتَعۡلَمُوۡا عَدَدَ السِّنِیۡنَ وَ الۡحِسَابَ ؕ سورۃ یونس
وہی (اللہ) ہے جس نے سورج کو روشنی (کا منبع) بنایا اور چاند کو (اس سے) روشن (کیا) اور اس کے لئے (کم و بیش دکھائی دینے کی) منزلیں مقرر کیں تاکہ تم برسوں کا شمار اور (اوقات کا) حساب معلوم کرسکو۔
سورت یونس مکی سورت ہے۔جس میں توحید کے دلائل ہے۔ اس وقت روزے اور نماز فرض نہ تھے لیکن عرب لوگ اپنے معاملات زندگی کے لیئے چاند کے ساتھ اپنی تاریخیں طے کرتے تھے۔اسی طرح حج اور حرمت کے مہینوں کا تعین بھی چاند سے کرتے تھے۔ جب مدینہ منورہ میں ہجرت کے بعد رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے ، حج فرض ہوا تو ماہ رمضان المبارک ، حرمت کے مہینوں، اور حج کے دنوں کا تعین کرنے کے لیے ہلال کا حکم دیا۔
اسلام صرف عبادات یا رسومات کا مذہب نہ تھا، بلکہ خلافت و ریاست کے نظام کا دین تھا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں جب ہجری کیلنڈر کا تعین ہوا . اب مختلف علاقے اور ریاستیں اسلامی خلافت کا حصہ بن گئیں۔مثلاً حجاز مقدس( سعودی عرب) اور ایران میں ایک ہی تاریخ یا کیلنڈر تھا، اگرچہ ہزاروں میل کا فاصلہ تھا۔ اسی طرح یہ نظام عثمانی خلافت کے خاتمہ تک رہا، اسی طرح متحدہ ہندوستان میں عثمانی خلافت کے ہلال پر اعلان ہوتا تھا۔ اور پورے متحدہ ہندوستان میں ایک ہی دن ماہ رمضان و عیدین کا انعقاد ہوتا۔20ویں صدی میں جب مسلمانوں کی وحدت تقسیم ہوئی ، عثمانی خلافت کا خاتمہ ہوا اور متحدہ ہندوستان بھی تقسیم ہوگیا۔ اس طرح سیاسی تقسیم سے نئے ممالک وجود میں آئے۔ اور ہر ملک نے اپنے ہلال کا اعلان شروع کردیا۔ مثلاً ترکی کا اپنا ہلال کا نظام بن گیا۔ عرب ممالک کا اپنا الگ نظام بن گیا۔ اسی طرح متحدہ ہندوستان میں ہلال کا اعلان ایک ہی ہوتا تھا۔ لیکن تقسیم ِہند کے بعد انڈیا کا اعلان الگ ہوگیا اور پاکستان کا الگ ہوگیا۔ پھر مشرقی پاکستان کےشہر ڈھاکہ میں ہلال نظر آتا تو لاہور میں اعلان ہوجاتا تھا۔جب 1971ء میں بنگلہ دیش کا وجود قائم ہو ا،پاکستان تقسیم ہوگیا تو مطلع ِ ہلال بھی تقسیم ہوگیا۔ اب پاکستان کا اپنا اعلان اور بنگلہ دیش کا اپنا اعلان ہوتا ہے۔ اس طرح یہ امت جس طرح سیاسی طور تقسیم ہوئی اسی طرح یہ ہلال کے مسئلہ پر بھی نہ صرف تقسیم ہوئی بلکہ اس تقسیم کو ایک مستحسن عمل قرار دیا۔ حلانکہ یہ کوئی اچھا عمل نہیں تھا۔ ہر علاقہ اور ملک کے مسلمانوں کو چاند دیکھنا چاہیے ۔لیکن ماہ شعبان ، ماہ رمضان ، ماہ شوال اور ماہ ذوالحجہ کا ہلال دیکھنا لازمی ہے۔ اگر نظر آجائے تو اعلان ہو، اگر ایک علاقہ میں نظر نہیں آیا، لیکن کسی دوسرے علاقہ میں نظر آیا تو اس پر عمل کرنا لازمی ہے۔
اختلاف مطلع کے مسئلہ پر فقہاء کرام کے دو گروہ ہیں، ایک گروہ جس میں حنفی، مالکی ،حنبلی مذاہب فقہ ہیں ان کا موقف ہے کہ اگر ایک جگہ ہلال نظر آئے تو سارے جہاں کے لیے ہے۔اس موقف کے فقہاء کہتے ہیں کہ اگر دن رات کا فرق نہ پڑے تو جہاں بھی ہلال کی درست خبر ملے، عمل کرنا لازم ہے۔دوسرا موقف امام شافعی کا ہے کہ ہر شہر کا اپنا مطلع ہے۔علامہ عبد الرحمان الجزیری اپنی مشہور کتاب الفقہ فی المذاہب الاربعۃ میں لکھتے ہیں: إذا ثبت رؤية الهلال بقطر من الأقطار وجب الصوم على سائر الأقطار، لا فرق بين القريب من جهة الثبوت والبعيد إذا بلغهم من طريق موجب للصوم. ولا عبرة باختلاف مطلع الهلال مطلقاً، عند ثلاثة من الأئمة؛ وخالف الشافعية(الفقہ فی المذاہب الاربعۃ)
اگرزمین کے کسی ایک علاقہ میں ہلال نظر آجائے تو تمام علاقوں میں روزہ فرض ہوجاتا ہے۔اس میں دور اور نزدیک کا اعتبار نہیں ہے۔لیکن جب یہ خبر اس انداز سے پہنچے کہ جس سے روزہ واجب ہوتا ہے۔ اور تین آئمہ ( امام ابوحنیفہ،امام مالک،امام احمد بن حنبل رحمت اللہ علیہم) کے نزدیک اختلاف مطلع کا بالکل اعتبار نہیں ہے۔البتہ امام شافعی کا فتویٰ مختلف ہے۔یاد رہے کہ امام شافعی رحمت اللہ علیہ کے نزدیک تقریباً 124 کلومیٹر کے بعد مطلع مختلف ہوتا ہے۔ بعد میں آنے والے شوافع نے بھی آئمہ ثلاثہ کے مذہب کو اپنا لیا تھا۔
مصنف انسائکلوپیڈیا حنفیہ، صدر الشریعہ علامہ امجد علی اعظمی رحمت اللہ علیہ اپنی تصنیف بہار شریعت میں لکھتے ہیں۔ اگر ایک چاند ہوا تو صرف وہیں کے کیے نہیں بلکہ تمام جہان کے لیے ہے۔ مگر دوسری جگہ کے لئے اس کا حکم اس وقت ان کے نزدیک اس دن ،تاریخ میں چاند ہونا شرعی ثبوت سے ثابت ہوجائے۔ (بہار شریعت جلد اول ، کتاب الصوم)
امام اہلسنت ، امام احمد رضا خان رحمت اللہ علیہ برصغیر میں وہ واحد مفکر امت ہیں، جنھوں نے وحدت ِ امت وخلافت کے نظریہ کو مستحکم رکھنے کے لئے جمہور فقہاء کرام کے فتوٰی وحدت مطلع پر کافی زور دیا۔
امام احمد رضا خان بریلوی رحمت اللہ علیہ فتاوٰی رضویہ میں لکھتے ہیں
مذہب حنفی میں اختلاف مطالع کا اصلا اعتبار نہیں یہی ظاہرالروایۃ ہے اور اسی پر فتوٰی ہے، اور علمائے کرام تصریح فرماتے ہیں کہ جو ظاہر الروایۃ سے خارج ہے وہ اصلًا مذہب ائمہ حنفیہ نہیں خصوصًا جب وہی مذیل بفتوٰی ہو کہ اب تو کسی طرح اس سے عدول روا نہیں۔(فتاویٰ رضویہ جلد 10 ،صفحہ402 )
جب امام اہلسنت ، امام احمد رضا خان رحمت اللہ علیہ کے پاس مولانا ریاست علی خان رحمت اللہ علیہ کا سوال آیا کہ: :کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ دو شخص کسی دوسرے شہر سے ٢٩ تاریخ کا چاند دیکھ کر آئیں، گو مسافت اُس شہر کی ایك ماہ سے زائد ہوتوگواہی اُن کی درباب رؤیت ہلال عیدالاضحی معتبر ہوگی یا نہیں؟ تو اس کا جواب یوں دیا کہ
جب وُہ شہادت شرعیہ عادلہ ہوتو ضرور معتبر ہوگی اگر چہ ہلال عید اضحی ہواگرچہ اُن میں مسافت ایك ماہ سے زیادہ ہو، یہی ہمارے ائمہ کا مذہب ہے اور اسی پر فتوٰی اور اس سے عدول باطل وناروا، (۔(فتاویٰ رضویہ جلد 10 ،صفحہ403 )
بلکہ امام احمد رضا خان رحمت اللہ علیہ علامہ شامی رحمت اللہ علیہ کی ایک فکری لغزش کا بھی رد کیا کہ انھوں نے عید الاضحیٰ کے ہلال اور ماہ رمضان المباک ، شوال المکرم کے ہلال کو الگ سمجھا۔ بلکہ علامہ عبد الحی لکھنوی رحمت اللہ علیہ کا بھی رد فرمایا جو کہ اختلاف مطلع کو معتبر سمجھتے تھے۔(فتاویٰ رضویہ جلد 10 ،صفحہ404 )
بلکہ صحیح مسلم کی حدیث کریب رضی اللہ عنہ کے حوالے سے سوال گیا تو اس کے جواب میں بھی امام احمد رضا خان رحمت اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا ۔
اہل مشرق پر اہلِ مغر ب کی رؤیت کی بنا پر روزہ افطار لازم ہے بشرطیکہ ان کے ہاں چاند کا ثبوت بطریق موجب شرعی ہو۔
امام اہلسنت ، امام احمد رضا خان رحمت اللہ علیہ نے 30ویں رات کی تراویح ادا کر چکے تھے ۔ اچانک مصر کچھ لوگ آئے ، انھوں نے بتایا کہ انھوں نےماہ رمضان المبارک کا ہلال ایک دن پہلے دیکھا تھا، لہذا بریلی شریف میں مصر کے ماہ رمضان المبارک کے ہلال پر رات 1 بجے فتوٰی دیا اور اگلے دن عید کروادی۔ امام اہلسنت ، امام احمد رضا خان رحمت اللہ علیہ اس بارے میں فرماتے ہیں کہ یہاں نہ منگل کو ہلال رمضان دکھائی دیا نہ پنجشنبہ کو ہلالِ عید، ابر تھا اور بہت گہرا، شبِ جمعہ میں ،میں نے تراویح پڑھیں اور صبح روزہ کی نیت کی تھی کہ دفعۃً مصر سے کچھ لوگوں کے آنے کی خبر سُنی جنہوں نے وہاں ہلالِ رمضان منگل کی شام کو دیکھا تھا وُہ بُلائے گئے اور اُنہوں نے شہادتیں دیں اور پوری تنقیح کی گئی اور رات کے ایك بجے صبح عید کاحکم دیا گیا اور اُسی وقت سے شہر و شہر کُہنہ و اطرافِ شہر میں اعلان کیا گیا،یُوں یہاں جمعہ کی عید ہُوئی ورنہ افوا ہیں تو پہلے سے سُنی جاتی تھیں جن پر حکم نہیں ہوسکتا تھا۔
یوکے و یورپ ہلال فورم نے مطلع ِ ہلال کے تعین کے لیے حنفی ،مالکی، حنبلی فقہاء کی آراء اور امام اہلسنت ، امام احمد رضا خان رحمت اللہ علیہ کی تصریحات کی روشنی میں مطلع ہلال کا تعین یوں کیا ۔ جمہور آئمہ فقہاء حنفی، مالکی اورحنبلی علماء کے نزدیک اختلاف مطالع معتبر نہیں ہے اِلَّا یہ کہ بون بعید یا بعد فحش ہو،مثلاً دن رات کا فرق نہ ہو۔
Add new comment