تمام علمائے امت محمدیہ ﷺ کا اتفاق ہے کہ 29ویں تاریخ کو ہلال دیکھو، اگر نظر نہ آئے تو 30 دن پورے کرو۔ آج تک کسی نے یہ نہیں کہا کہ 30دن پورے کرکے بھی چاند دیکھو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ ماہ کے چاند کے مکمل ہونے کا یقین ہوگیا ہے اور نیا چاند شروع ہوگیا ہے۔لیکن اگر 29 دن پورے ہوگئے تو چاند نظر آنے کا امکان ہے ۔ تو اس کے ثبوت کے طریقے مقرر ہوئے کہ چاند دیکھا جائے۔ گواہیاں ہو، پھر ثبوتِ رؤیت ِ ہلال کے لیے شرع میں سات٧طریقے بیان کیے گئے ۔ اس قدر پابندیاں کیوں لگائی گئیں ، علت کیا ہے؟ صرف ایک ہی وجہ و علت ہے کہ یہ یقین ہوجائے کہ گزشتہ چاند کا مہینہ ختم ہوگیا ہے۔ اور نیا شروع ہوگیا ہے۔
قُرآن مجید میں ارشاد ہے ۔ھُوَ الَّذِیۡ جَعَلَ الشَّمۡسَ ضِیَآءً وَّ الۡقَمَرَ نُوۡرًا وَّ قَدَّرَہٗ مَنَازِلَ لِتَعۡلَمُوۡا عَدَدَ السِّنِیۡنَ وَ الۡحِسَابَ ؕ (سورت یونس)
وہی وہی (اللہ) ہے جس نے سورج کو روشنی (کا منبع) بنایا اور چاند کو (اس سے) روشن (کیا) اور اس کے لئے (کم و بیش دکھائی دینے کی) منزلیں مقرر کیں تاکہ تم برسوں کا شمار اور (اوقات کا) حساب معلوم کرسکو۔
چاند کی حرکات اور منزلوں کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے۔ بلکہ منازل کا ذکر کرنے کے بعد لِتَعۡلَمُوۡا عَدَدَ السِّنِیۡنَ وَ الۡحِسَابَ جملہ براہ راست اس کی نشاندہی کررہا ہے کہ چاند کی منازل کا علم کیلنڈر تیار کرنے میں معاون ہے۔ اسلام سے پہلے چاند ، ستاروں کے ساتھ لوگ أحوال منسوب کرتے تھے۔ اسلام نے اس کی تردید کی ، چاند گرہن کے بارے میں مفروض نظریات تھے ، اسلام نے اس کا خاتمہ کیا۔ اور منجمین ( ستاروں کی چال سے قسمت بتانے والوں) کی مذمت کی کیونکہ یہ توحید کے مخالف لوگ تھے۔ رفتہ رفتہ ترقی ہوئی ۔ اس پر کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ قدیم علماء نے ہلال کے اعلان کو علم الحساب سے کرنے سے منع کیا ہے۔ لیکن کیوں کیا ہے اس کی وجہ کیاتھی۔ امام اہلسنت، امام احمد رضا خان رحمت اللہ علیہ کا اقتباس پیش خدمت ہے۔جنتریوں کا بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
صحیح مذہب کے مطابق اہلِ توقیت کا قول معتبر نہیں اگر چہ وُہ عادل ہوں ۔ پھر اس کے بعد فرماتے ہیں کہ آ ج کل کی جنتر یوں جو عمومًا ہنود وغیرہم کفار شائع کرتے ہیں یا بعض نیچری نام کے مسلمان یا بعض مسلمان بھی، تو وُہ بھی انہی ہندوانی جنتریوں کی پیروی سے، کیا قابلِ التفات ہوسکتی ہیں؟ فقیر نے بیس٢٠20برس سے بڑی بڑی نامی جنتریاں دیکھیں، اول مصرانی ہیئت ہی ناقص و مختل ہے پھر ان جنتری سازوں کو اس کی بھی پُوری تمیز نہیں، تقویماتِ کواکب میں وہ وہ سخت فاحش غلطیاں دیکھنے میں آئیں جن میں کوئی سمجھ دار بچّہ بھی نہ پڑتا پھر یہ کیا اور ان کی جنتری کیا، اور ان کی دوج اور پروا کی کسے پروا(فتاویٰ رضویہ جلد 10 )۔اگر محض جنتریوں سے اعلان کرنا ہو تو ہم بھی اس کو درست نہیں کہتے کیونکہ آج سے 150 سال پہلے چاند پر اس قدر تحقیق نہ تھی جتنی اس وقت ہے۔ آسٹرو فزکس سائنس نے مفروضوں کی بجائے تجرباتی اور درست نظریات پیش کیے۔ لہذا اس وقت چاند کی حرکت اور ڈیٹا غلطیوں سے بالکل صاف ہے۔ اور جس طرح سورج کے طلوع و غروب کی سائنسی اطلاع غلط نہیں ہوتی، اسی طرح چاند کی پہدائش، کس وقت کس مدار میں ہوگا۔پیدا ہونے کے بعد کس وقت دوبارہ سورج کی روشنی میں ہوگا ۔ کس وقت بدر ( مکمل چاند) ہوگا، کب چاند گرہن لگے گا، سورج گرہن لگے گا ، یہ سب اطلاعات بالکل درست ہیں ۔ بلکہ جس طرح زنا اور ریپ کے ثبوت کے لئے گواہ شرط ہیں لیکن ڈی این اے کی دریافت نے گواہوں سے زیادہ مستند ثبوت مہیا کیا ہے۔ یہی صورتحال چاند کے مسئلہ میں ہے کہ آسٹروفزکس پر مبنی اطلاعات میں غلطی کا امکان نہیں ہے۔پچھلے 100 سال میں سائنسی ترقی کے بعد علمائے اسلام نے آسٹروفزکس کی بنیاد پر چاند کے اعلان کو نہ صرف قبول کیا بلکہ اس کی اہمیت و ضرورت پر کتابیں لکھیں۔ اس مسئلہ پر ملک شام کے عظیم سنی عالم ڈاکٹر مصطفیٰ الزرقا کی کتاب العقل و الفقہ فی فہم الحدیث کا ایک پورا مقالہ ہماری ویب سائٹ پر موجود ہے ، جو ان تمام سوالات کے جوابات دیتا ہے ۔ جس میں آسٹرو فزکس کے علم پر ہلال کے اعلان کی اہمیت پر زور دیاہے۔
Add new comment